’میرا وہ سامان لوٹا دو‘
’پولیس لائن گیسٹ ہاؤس میں حراست کے دوران میری شیونگ کٹ اور کپڑے نیب کی انکوائری رپورٹ کے ساتھ وہاں رہ گئے ہیں اس سے پہلے کہ نیب مجھے کوئی نیا سمن جاری کرے ’میرا وہ سامان مجھے لوٹا دو‘ اسے زمان پارک بھجوا دیں یا میرا لیگل کونسل آپ کے دفتر سے آ کر وصول کرلے گا‘۔
یہ معصوم سی خواہش ظاہر کی ہے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے نیب راولپنڈی کے القادر ٹرسٹ کیس میں طلبی نامے کے جواب میں۔ اس سے پہلے میں عمران خان کے جواب کی مزید تفصیلات سے آگاہ کروں القادر ٹرسٹ کیس کے چند حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
نیب راولپنڈی کی جانب سے عمران خان اور دیگر کے خلاف گزشتہ برس نیشنل کرائم ایجنسی (برطانیہ) کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ، جو پاکستانی رقم میں تقریباً 60 ارب روپے بنتے ہیں، اس کو کابینہ کی منظوری سے غیر قانونی طور پر ذاتی مفاد کے لیے کسی دوسرے شخص کو منتقل کرنے کی اجازت دی جو درحقیقت ریاست پاکستان کی ملکیت میں جانے تھے۔
14دسمبر 2018ء کو نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستانی دوشخصیات احمد علی ریاض اور مبشرہ احمد علی ریاض کے اکاؤنٹ جس میں 20 ملین پاونڈ موجود تھے یوکے کرائم ایکٹ 2002ء کے تحت منجمند کیے۔ اس کے علاوہ 12 اگست 2019ء کو ملک ریاض خاندان کے اکاؤنٹس میں موجود 119.7 ملین پاونڈ سمیت 1 ہائیڈ پارک پراپرٹی بھی برطانیہ کے قوانین کے مطابق فریز کی جسے برطانیہ کی (ویسٹ منسٹر مانچسٹر) کی عدالت نے درست قرار دیا۔
وزیر اعظم پاکستان کو 2 دسمبر 2019ء کو لکھے گئے نوٹ میں کہا گیا کہ این سی اے کی ریکور کردہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں جانی چاہیے، جبکہ 3 دسمبر 2019ء کو پاکستان کے ایسٹ ریکوری یونٹ جس کی سربراہی اس وقت شہزاد اکبر کر رہے تھے، انہوں نے اپنی ایک پریس ریلیز میں واضح طور پر کہا کہ برطانوی حکومت فوری طور پر یہ رقم ریاست پاکستان کو لوٹانے کے لیے تیار ہے۔
جبکہ نیب کا دعوی ہے کہ یہ رقم ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں جانے کی بجائے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں واجب الادا رقم کے لیے قائم خصوصی اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی اور پاکستانی ایسٹ ریکوری یونٹ کے 2019ء میں چئیرمین شہزاد اکبر نے عمران خان کی رضا مندی سے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابینہ سے حقائق چھپائے اور مبینہ طو ر پر بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے بدلے میں 28 کروڑ روپے مالیت سے زائد کی 458 کنال اراضی حاصل کی۔
نیب نے عمران خان کو 20 نکات پر مشتمل ایک سوالنامہ بھی دیا تھا جس کے جوابات اور دستاویزی ثبوت عمران خان سے طلب کیے گئے۔
نیب کی جانب سے جاری اس تحقیقات کی مزید تفصیلات موجود تو ہیں لیکن قصہ مختصر کرتے ہوئے اب آپ کو عمران خان کی جانب سے نیب راولپنڈی کو لکھے گئے جوابی خط کے بارے میں بتاتا ہوں جس میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب کا یہ طلبی نامہ بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ ایک سیاسی نوعیت کا کیس ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان نے کہا کہ وہ مختلف کیسسز میں عدالتوں سے قبل از گرفتاری ضمانتیں حاصل کرنے میں مصروف ہیں اس لیے وہ ذاتی حیثیت میں پیش نہیں ہوسکتے۔ جبکہ نیب کی جانب سے انکوائری میں شامل نہ ہونے کے الزام کو بھی یکسر مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نیب نے عمران خان کو مارچ میں جو نوٹس جاری کیا تھا اس کا مناسب جواب جمع کروادیا گیا تھا جبکہ نیب نے انکوائری سے کیس کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کرنےسے قبل مجھے نیب قوانین کے مطابق انکوائری رپورٹ کی کاپی فراہم نہیں کی۔
اس سے پہلے توشہ خانہ کیس میں بھی قوانین کے بر خلاف مجھے نوٹسسز جاری کیے جس پر میرے اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے نیب کے متعلقہ افسر نے دوبارہ نوٹس جاری کیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر میری پٹیشن میں اعتراضات کو قائم رکھا’۔
عمران خان نے نیب پر الزام بھی لگایا ہے کہ ان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر قانونی گرفتاری جسے وہ اغوا کہتے ہیں اس میں نیب بھی سہولت کار ہے۔
تاہم عمران خان نے سوالات کے جواب میں یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’کچھ ریکارڈ تو حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہے، جبکہ این سی اے، گورنمنٹ آف پاکستان، اور ملک ریاض خاندان کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا ریکارڈ نہ ہی میرے پاس ہے اور نہ ہی اس تک میری رسائی ہے۔ جہاں تک القادر یونیورسٹی کے قیام، القادر ٹرسٹ اور دیگر معاملات کی بات ہے تو اس کے چیف فنانشل آفسر نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پہلے ہی نیب کو دستاویزات کا ایک پلندہ فراہم کر چکے ہیں لہٰذا مزید کوئی نیا نوٹس جاری کرنے سے پہلے اپنا ریکارڈ چیک کر لیں‘۔
عمران خان نے اپنا جواب تو جمع کروادیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نیب اس جواب سے مطمئن ہوتا ہے یا نہیں اور جیسے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں لکھا ہے کہ اگر عمران خان تفتیش میں تعاون نہیں کرتے تو نیب ان کی ضمانت منسوخی کی درخواست کرسکتا ہے تو اس آپشن پر عمل ہوگا یا نہیں اس کا آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔
یہ بھی قلعی کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس کیس کا حال بھی شہباز شریف سمیت دیگر سیاسی شخصیات کے خلاف بننے والے نیب کیسسز کی طرح ہی ہوگا یا نہیں لیکن نیب کو عمران خان کی شیونگ کٹ اور کپڑے تو بلآخر لوٹانا ہوں گے۔