• KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات پر اتفاق ہوگیا، اسحٰق ڈار

شائع May 2, 2023 اپ ڈیٹ May 3, 2023
اسحٰق ڈار نے کہا کہ مذاکرات میں مثبت طریقے سے تمام چیزوں پر تبادلہ خیال کیا اور مجموعی نتیجہ مثبت نکلا—فوٹو:ڈان نیوز
اسحٰق ڈار نے کہا کہ مذاکرات میں مثبت طریقے سے تمام چیزوں پر تبادلہ خیال کیا اور مجموعی نتیجہ مثبت نکلا—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات میں ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات پر اتفاق ہوگیا تاہم تاریخ طے نہ ہوسکی۔

اسلام آباد میں حکومتی وفد اور پی ٹی آئی کے دورمیان مذاکرات کا تیسرا دور ہوا، جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ مذاکرات کے تیسرے دور میں تفصیل کے ساتھ مثبت طریقے سے تمام چیزوں پر تبادلہ خیال کیا اور مجموعی نتیجہ مثبت نکلا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک ہی دن تمام انتخابات ہونے چاہئیں اور صوبوں میں الگ یا مختلف تاریخ پر انتخابات کی کوئی بات نہیں ہے۔


فریقین نے درج ذیل نکات پر اتفاق کیا

  • ملک بھر میں ایک دن انتخابات ہوں
  • نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا
  • انتخابات کے نتائج تسلیم کیے جائیں گے

انہوں نے کہا کہ جس دن بھی ملک میں الیکشن ہوں گے، اس دن ملک بھر میں نگران حکومتیں ہوں گے، ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کا مقصد یہ ہے کہ اس پر سوالات اور انگلیاں نہ اٹھیں۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ تجویز کے تحت الیکشن ہوتے تو دو صوبوں میں انتخابات اور تین صوبوں میں حکومتیں ہوتیں، اسی طرح جب باقی تین صوبوں میں انتخابات ہوتے تو پھر ان دو صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہوتیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ہوں اور اس وقت نگران حکومتیں موجود ہوں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ایک اہم معاملہ انتخابات کی تاریخ کا تعین ہے کہ الیکشن کب ہوں، اس حوالے سے دونوں فریقین کی اپنی اپنی تاریخیں ہیں جن پر کچھ لچک ضرور آئی ہے لیکن ابھی کسی ایک متفقہ نکتے پر نہیں پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہو نے بھی اپنی قیادت سے جاکر دوبارہ بات کرنی ہے، ہمیں بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنی ہے اور آنے والے دنوں میں مثبت پیش رفت کی امید ہے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک دن میں انتخابات اور نگران حکومتوں کے قیام پر اتفاق بہت بڑی پیش رفت ہے، یہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک اہم بات انتخابات کی تاریخ کا تعین ہے، اس میں کئی چیزیں ہمارے سامنے ہیں، بجٹ ملک کو چاہیے، ٹریڈ پالیسی چاہیے، آئی ایم ایف کا جاری جائزہ چاہیے تو ان چیزوں کے لیے تاریخ کا تعین تھوڑا سا پیچیدہ عمل ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم بھی جتنی لچک دکھا سکتے ہیں، ہم نے بھی دکھائی ہے، وہ بھی دکھا رہے ہیں اور امید ہے کہ اگر اسی طرح سے اسی خلوص کے ساتھ دونوں فریقین چلیں گے تو آخری مرحلہ بھی حل ہوجائے گا۔

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مذاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے، وہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرے گی، یہ صورت حال نہ ہو کہ ملک بھر میں افراتفری ہو۔

اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوا، شاہ محمود قریشی

مذاکرات میں شرکت کے بعد شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 19 تاریخ کو سپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر گفت و شنید سے کوئی راستہ نکال سکتی ہیں تو انہیں اعتراض نہیں ہوگا، وہ بیٹھ کر کوئی حل نکال سکتے ہیں تو بالکل وقت لے لیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سوچ کو سامنے رکھتےہوئے پی ٹی آئی نے وہاں اپنی آمادگی کا اظہار بھی کیا اور عمران خان نے 3 رکنی کمیٹی مذاکراتی عمل کے لیے تشکیل دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ذمہ داری سونپی گئی ہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھائیں، اسی تناظر میں پی ڈی ایم نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری تین نشستیں ہوئیں، پہلی نشست 27 اور دوسری نشست 28 اپریل کو ہوئی تھی اور ہم نے کوشش کی کہ ہم کسی اتفاق رائے کی طرف آگے بڑھ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن چیزوں پر ہم نے اتفاق کیا کہ سیاسی جماعتوں کو ایسی بات پر متفق ہونا چاہیے، جو ملک اور عوام کے مفاد میں ہو اور آئین سے مطابقت رکھتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات جس پر اتفاق ہوا وہ یہ تھا کہ مذاکراتی عمل کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے فیصلے پر من و عن آگے لے کر چلیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم اس چیز پر بھی متفق ہوئے کہ اگر کسی چیز پر متفق ہوتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا تاکہ یقینی بنائیں ہم آگےبڑھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا ابتدائی مؤقف تھا کہ آئین کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر ہونے چاہیے اور ہم 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات پر مطمئن ہیں اور ہم چاہتے ہیں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں اور اس کے بعد خیبرپختونخوا کا عمل منطقی انجام کو پہنچے۔

وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا ابتدائی مؤقف تھا کہ انتخابات بیک وقت سارے ملک میں ایک ہی روز کیے جائیں بشمول پنجاب اور خیبرپختونخوا اور اسمبلیوں کی تحلیل اس وقت ہو جب اسمبلی کی مدت پوری ہو یعنی کہ 11 اور 12 اگست اور اس پر ہم نے گفتگو کی اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کی۔

’ہم نے کافی لچک دکھائی‘

انہوں نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلی 14 مئی کو یا اس سے پہلے تحلیل ہو کیونکہ اس کے پیچھے منطق تھی تاکہ الیکشن 60 دن کے اندر ہونے چاہیئں اور اس 60 دن کے الیکشن کے لیے ہمیں آئینی تحفظ دینا ہوگا، جس کے لیے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہے اور ایک دفعہ ترمیم کے لیے تیار ہیں لیکن روایت نہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن حالات میں ابھی پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے ہم نےیہ تجویز وہاں رکھی، ہم یہ چاہتے ہیں ہمارے درمیان جو معاہدہ ہو وہ تحریری ہو اور ہم اس کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کی توثیق ہو اور وہ اس کے عمل درآمد یقینی بنا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی ہم نے اپنا مؤقف دیا کہ انتخابات ایسے ماحول اور ایسے انداز میں صاف اور شفاف ہوں کہ ان کا نتیجہ قبول کرنے میں کسی کو دقت ہو کیونکہ انتخابات کے نتائج تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ انتخابات ہوجائیں اور اس کے بعد ان کے فیصلوں پر کوئی آمادہ نہ ہو۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کافی لچک دکھائی اور قومی اتفاق رائے کے لیے یہ لچک دکھائی، ہم نے ایک دن کی تجویز قبول کی، ہم نے نگران سیٹ اپ کی خواہش کو تسلیم کیا، الیکشن ایکٹ کے تحت 54 دن کی قدغن کو تسلیم کیا اور ہم آگے بڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اور ہمارے درمیان اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا، ہم نے دیانت داری سے کوشش کی اور اس کوشش کو جاری رکھا، اس ماحول میں جہاں حکومتی ساتھیوں کی وجہ سے خراب کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تجویز ہماری نظر میں مثبت، قابل عمل اور آئین کے دائرے کے اندر تھی، اس تجویز کو ہمارے سرکاری دوستوں کو تسلیم کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔

’سپریم کورٹ کو آگاہ کریں گے، 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن ہوں‘

ان کا کہنا تھا کہ جس نیک نیتی سے ہم بیٹھے تھے اور ہم نے کوشش کی تھی اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اپنا مؤقف تحریری طور پر بتادیں گے کہ ہم نے کیا کیا اور کہاں ہم نے لچک دکھائی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم عدالت سے گزارش کریں گے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے لیے جو ان کا فیصلہ تھا اس پر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہوسکی، تحریک انصاف چاہے گی الیکشن 14 تاریخ کو کروا دیے جائیں اور خیبرپختونخوا کے انتخابات میں بھی ہم تاخیر نہیں چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کا معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تو ہم چاہیں گے اس کا فیصلہ بھی جلد از جلد ہو اور خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات ہوں۔

حکومت اور پی ٹی آئی کی کمیٹی کے مذاکرات

اس سے قبل ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا تھا کہ یہ مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک ہال میں ہوئے۔

مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار، خواجہ سعد رفیق، اعظم نذیر تارڑ ، سردار ایاز صادق کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی اور سید نوید قمر شامل تھے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کا وفد وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینئر نائب صدر فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر پر مشتمل تھے۔

مذاکرات کے آغاز سے قبل چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکمران اور پی ٹی آئی مذاکرتی کمیٹی کےاعزاز میں عشائیہ دیا جس میں اسحٰق ڈار، طارق بشیر چیمہ،نوید قمر، اعظم نذیر تارڑ اور یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر شریک ہوئے۔

پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے مذاکرات میں آپ سب کو پتا چل جائے گا کہ ہماری کیا شرائط ہیں، ہم پہلے سے میڈیا کو کیا بتائیں آج ہم حکومتی ٹیم سے کیا بات کرنے جا رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا دونوں جانب سے مذاکرات میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، ہم سنجیدگی اور ایمان داری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے اجلاس میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تیسری نشست کے لیے حکمت عملی طے کی۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی جو مذاکرات کے مخالف ہیں۔

جمعے کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے دوران دونوں اطراف کے رہنماؤں نے اپنی تجاویز پیش کیں, پی ٹی آئی کے وفود نے اپنی قیادت اور حکومتی نمائندوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا تھا۔

مذاکرات کے بعد اسحٰق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ منگل کے روز (آج) ہونے والی بات چیت مذاکرات کا تقریباً آخری دور ہوگا۔

خیال رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات سپریم کورٹ کی تجویز پر گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے جس سے طویل عرصے سے جاری تعطل کا خاتمہ ہوا تھا، مذاکرات کے دو دور کے بعد اب فریقین کے درمیان کل بروز منگل مذاکرات کا تیسرا اور آخری دور متوقع ہے۔

تاہم، مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے کامیاب نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ روز بھی عمران خان نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کے حکومتی کے بد دیانت منصوبے میں نہیں پھنسےگی اور اگر سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو پارٹی سڑکوں پر نکلے گی۔

حکومت نے عمران خان کے الٹی میٹم کو ناقابل عمل قرار دیا اور ان سے کہا کہ وہ بات چیت کی کامیابی کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں۔

قبل ازیں وفاقی وزیر جاوید لطیف نے پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دہشت گردوں‘ اور قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

اس سے ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ انہیں مذاکرات کا کوئی ’مثبت نتیجہ‘ نظر نہیں آرہا، انہوں نے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا جبکہ وہ شرائط عائد کر رہے ہیں۔

ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر برائے ترقی احسن اقبال نے بھی کہا کہ ہم عمران خان کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بندوق کی نوک پر مذاکرات نہیں کر سکتے، مذاکرات کی پہلی شرط یہ ہے کہ کوئی پیشی شرائط عائد نہیں کی جائے گی، عمران خان اتنے بے چین ہیں کہ وہ اپنا راستہ یا ہائی وے چاہتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے صدر اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے بھی مذاکرات اور بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔

تاہم پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) پر زور ڈالنے والی پیپلز پارٹی بات چیت کے حوالے سے پُرامید تھی، پی پی پی کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی قمر زمان کائرہ نے ڈان کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ 14 مئی تک اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کی جانب سے ایک شرط کے بجائے تجویز ہے البتہ یہ تجویز قابل عمل نہیں، مئی میں قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو بجٹ کون پیش کرے گا؟ آئی ایم ایف کے ساتھ گفت و شنید اور آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کو نگران سیٹ اَپ پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس طرح کے مشورے کے باوجود پی پی پی کا خیال ہے کہ اکثریتی فیصلہ غالب ہو گا اور یہ مذاکرات ناکامی پر ختم نہیں ہوں گے۔

انتخابات کے حوالے سے متفقہ فیصلے کے لیے حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ہم مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پُرامید ہیں کہ وفاقی اتحاد اور پی ٹی آئی دونوں ہی ڈیڈلاک کی طرف نہیں جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024