مجموعی جائزے کے بغیر آرٹ، ادب کو ’فحش‘ نہیں کہا جا سکتا، سپریم کورٹ
’فحش‘ اور ’بیہودہ‘ مواد کو ایک ایسی چیز کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہ جو ’شرافت کے عام طور پر قبول شدہ معیارات کے خلاف جارحانہ ہے‘، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ آزادی اظہار اور معلومات کے حق کے بنیادی حقوق کا اطلاق نہ صرف ان خیالات پر ہوتا ہے جو مثبت طور پر موصول ہوتے ہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں جو ریاست یا آبادی کے کسی دوسرے شعبے کو ناراض، صدمہ یا پریشان کرتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے اے آر وائی کمیونیکیشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سامنے آیا، جس میں سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل کی گئی تھی جس میں ڈراما سیریل ’جلن‘ کی نشریات پر چینل کے خلاف واچ ڈاگ کے تعزیری اقدامات کو ختم کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے پیمرا کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریگولیٹر صرف اس وقت کارروائی کر سکتا ہے جب زیر بحث ڈرامہ سیریل کے قابل اعتراض پہلو کا جائزہ لے کر شکایات کونسل کو بھیج دیا جائے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سیریل کے کیس کی سماعت کی، جس میں شہریوں کی جانب سے اس شو کو غیر اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے خلاف قرار دینے کی شکایات موصول ہوئی تھیں اور پیمرا نے ایک حکم جاری کر کے ستمبر 2020 میں سیریل کے نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
اس کے بعد چینل نے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 26 کے تحت شکایات کونسل کی رائے حاصل کیے بغیر شو کاز نوٹس جاری کرنے کے پیمرا کے دائرہ اختیار پر اعتراض کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا، ہائی کورٹ نے اپیل منظور کرلی تھی اور پیمرا نے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
اپنے حکم میں سپریم کورٹ کے دو ججوں نے نوٹ کیا کہ پیمرا کسی پروگرام کے قابل اعتراض پہلو کے بارے میں شکایات کی کونسل کی رائے حاصل کرنے کا پابند ہے اور اس قدم کو نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ پیمرا پر اپنے قوانین کی کسی مبینہ خلاف ورزی یا موصول ہونے والی معلومات پر ازخود نوٹس کوئی پابندی نہیں تھی، فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ قانون نے ایسے معاملات کو شکایات کی کونسل کو بھیجنے کا کہا جو جائزہ لے گی اور پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 26 کے مطابق اپنی رائے پیش کرے گی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بنیادی نکتہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ آرٹ اور ادب کے کسی بھی قسم کے کام کی نمائش آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کا حصہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اظہار کی صرف اس شکل کو ہی ’فحش‘ یا ’بیہودہ‘ کہا جا سکتا ہے جو ’شرافت کے عام طور پر قبول شدہ معیارات کے خلاف جارحانہ‘ ہو۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کمیونٹی میں ’عام طور پر قبول شدہ شائستگی کے معیار‘ اس بات کا تعین کرنے کا معیار ہے کہ ؎ ڈرامے میں کسی کے خیال، خیال یا رائے کے اظہار کی کوئی خاص شکل ’فحش‘ ہے یا ’ بیہودہ’ ہے۔
مزید، فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ ’شرافت کے عام طور پر قبول شدہ معیارات‘ کو عصری معیارات کے طور پر سمجھا جانا چاہیے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ سماجی رویے اور حساسیتیں بدلتی رہتی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹ اور ادب کا ایک کام، جس میں الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والا ڈراما شامل ہے، عام طور پر سماجی ممنوعات پر خاموشی کو توڑنے کے لیے ایک مضبوط اور مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لہذا اس پیغام کی تعریف کیے بغیر اس پر ’فحش‘ یا ’بیہودہ‘ کا لیبل نہیں لگایا جانا چاہیے۔