زمان پارک کے باہر افراتفری، پی ٹی آئی کارکنوں کا پولیس سے تصادم، عالمی میڈیا نے کیا لکھا؟
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے لیے جمع قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے لاہور میں زمان پارک کے اطراف کا علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔
پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر پہنچی لیکن وہاں پی ٹی آئی کے کارکن پہلے ہی ڈھال بن گئے تھے اور پولیس کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جہاں کئی گھنٹوں تک وقفے وقفے سے پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
اس معاملے کو دنیا بھر کے معروف اداروں نے بھی بھرپور کوریج دی جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی اس معاملے کو لائیو کور کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے گھر کے باہر افراتفری، گرفتاری کے لیے آئی پولیس اور کارکنوں میں تصادم ہو گیا۔
ادارے نے لکھا کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے معاملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کردیا جبکہ بلاول کی سی این این سے گفتگو کو بھی خبر کا حصہ بنایا جنہوں نے عدالتوں کا سامنا نہ کرنے پر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بلوم برگ نے لکھا کہ عمران کی گرفتاری کے لیے آئے پولیس اہلکاروں اور کارکنوں میں تصادم ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور عمران خان کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جو دوسری مرتبہ انہیں گرفتاری کے لیے آئی تھی اور اس کے نتیجے میں سیاسی بحران مزید شدید تر ہو گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) نے اپنی خبر میں بتایاکیا کہ لاہور میں پرتشدد واقعات کے بعد سابق وزیر اعظم کی جانب سے گرفتاری کی کوششوں کی مذمت کی گئی جبکہ خبر میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ دعویٰ بھی شامل تھا جنہوں نے کہا کہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے عورتوں، بچوں اور پارٹی کارکنان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے اسکائی نیوز نے کہا کہ 70سالہ عمران خان اثاثے چھپانے، توشہ خانہ کے تحائف غیرقانونی طور پر فروخت کرنے، دہشت گردی سمیت متعدد مبینہ جرائم کے ارتکاب کے الزام میں نکالے گئے وارنٹ گرفتاری کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
ٹیلی گراف نے لکھا کہ پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے پرعزم ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ہزاروں کارکنوں کا پولیس سے تصادم ہوا۔
الجزیرہ نے اپنی خبر میں کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کا انہیں گرفتار کرنے کا مقصد الیکشن سے بچنا ہے جبکہ پولیس نے کہا تھا کہ وہ عمران خان کو دن کے اختتام تک گرفتار کر لیں گے لیکن وہ دن گرفتاری کے بغیر ہی گزر گیا۔
اس طرح مختلف بھارتی اور ترک نشریاتی اور خبر رساں اداروں نے بھی لاہور میں عمران خان کی گرفتاری اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے کیے جا رہے احتجاج کو بھی اپنی خبر کا حصہ بنایا۔