• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

ممتاز اداکار، ٹی وی میزبان ضیا محی الدین کراچی میں انتقال کرگئے

شائع February 13, 2023
— فوٹو: ٹوئٹر
— فوٹو: ٹوئٹر

ممتاز اداکار ، معروف ہدایت کار اور ٹی وی میزبان ضیا محی الدین 91 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہوجانے سے کراچی میں انتقال کر گئے۔

اہل خانہ کے مطابق ضیا محی الدین کئی روز سے علیل تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے، وہ آج صبح 6 بجکر 30 منٹ پر حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔

ضیا محی الدین کی نماز جنازہ بعدکراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 4 کی امام بارگاہ یثرب میں ادا کی گئی۔

نمازجنازہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی جبکہ محی الدین کی تدفین ڈیفنس فیز 4 کے قبرستان میں کی جائے گی۔

ضیا محی الدین 20 جون 1933 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدکوپاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونےکا اعزاز حاصل تھا۔

معروف ہدایت کار ضیا محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا، انہوں نے آسٹریلیا اور انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔

1956ء میں وہ وطن واپس لوٹے تو انہیں فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

بعد ازاں انہوں نے تھیٹر کے کئی ڈراموں اور ہالی وڈ کی کئی فلموں میں کردار ادا کیے تھے، انہوں نے 1962 میں مشہور فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں لازوال کردار ادا کیا۔

1970ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ’ضیا محی الدین شو‘ کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی کی تھی۔

ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن اور جو جانے وہ جیتے کے نام سر فہرست ہیں ۔

وہ اردو ادب کے فن پارے اپنی خوب صورت آواز میں پیش کرنے میں بھی ماہر تھے، انہیں 2004ء میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

ضیا محی الدین کو 2012 میں ہلال امتیاز ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

اردو ادب کے ممتاز و معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی نے ضیا محی الدین کے بارے میں کہا تھا کہ رتن ناتھ سرشار، چوہدری محمد علی ردولوی، فیض احمد فیض اور پطرس کی تصانیف کے شہ پارے ضیا محی الدین نے پڑھے ہیں، وہ جہاں لکھنے والے کے کمال فن کا نمونہ ہیں وہاں پڑھنے اور پیش کرنے والے کے حسن انتخاب، سخن فہمی، نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت، لفظ کا مزاج اور لہجہ اور لہجے کا ٹھاٹ پہچان کی صلاحیت کا صحیح معنوں میں منہ بولتا ثبوت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضیا محی الدین واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔

اظہارِ تعزیت

ضیا محی الدین کے انتقال پر ان کے مداحوں اور دوستوں کی طرف افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ضیا محی الدین کے انتقال پر تعزیت کااظہارکیا۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ضیا محی الدین اپنی ذات میں ایک فن پارہ تھے ان کے مخصوص انداز نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دھوم مچائی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ان کی صلاحیتوں اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل دے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بھی ضیا محی الدین کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضیا محی الدین ایک ایسی ادبی شخصیت تھے جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مرحوم کی شو بز انڈسٹری کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی ممتاز اداکار اور معروف ہدایت کار ضیا محی الدین کے انتقال پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انہیں ضیا محی الدین کے انتقال کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا، ممتاز اداکار کا انتقال دنیائے فن کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی ضیا محی الدین کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ضیاء محی الدین کے انتقال کی خبر سن کر دکھ ہوا۔ میں انہیں کئی دہائیوں سے جانتا تھا۔ وہ انتہائی مہذب انسان تھے، اردو ادب میں وہ وہ ایک ادارہ تھے۔انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024