پارلیمانی کمیٹیاں فیصلہ کرنے میں ناکام، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کا تقرر الیکشن کمیشن کرے گا
صوبہ پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹیاں صوبے کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو کے نام پر اتفاق رائے میں ناکام رہی جس کے بعد اب نگراں وزیر اعلیٰ کے نام کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔
پنجاب اسمبلی میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹیوں کا اجلاس اسپیکر سبطین خان کی صدارت میں دو گھنٹے سے زائد جاری رہا لیکن طویل اجلاس کے باوجود دونوں جانب سے نگراں وزیر اعلیٰ کے ناموں پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔
دوران اجلاس اراکین ایک دوسرے کے نیب کیسز اور نامزد امیدوار کی رشتہ داریوں کا حوالہ دیتے رہے اور نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے ایک دوسرے کے تجویز کردہ ناموں کو متنازع قرار دیتے رہے۔
پارلیمانی پارٹی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے راجا بشارت، ہاشم جواں بخت اور میاں اسلم اقبال جبکہ قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے ملک محمد احمد خان، سید حسن مرتضیٰ اور ملک ندیم کامران کے نام تجویز کیے تھے۔
میڈیا سے گفتگو میں حکومتی کمیٹی کے اراکین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر اعلیٰ کا فیصلہ نہیں کر سکے اور اب فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
راجا بشارت نے کہا کہ نگراں وزیر اعلی کے لیے دو پارلیمانی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں اور اس کے اجلاس میں دو ناموں پر بات ہوئی، جو نام ہم نے دیے ان کو اگر کسی بھی پیمانے پر دیکھیں تو اپوزیشن سے بہتر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دو دنوں سے نامزد لوگوں کی درگت بن رہی ہے، وہ فیصلے کریں جو عوام کو قابل قبول ہوں، اپوزیشن دو ناموں پر اڑی رہی، ہم نے نصیر احمد کا نام بھی دیا جبکہ اس کے علاوہ دو بیوروکریٹس کے نام بھی دیے۔
راجا بشارت کا کہنا تھا کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ دونوں اطراف کے نام الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے اور چاروں امیدواروں کے کردار کو سامنے رکھ کر بہتر شخص کا نام لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے شخص کو سامنے لایا گیا جو متنازع ہو تو ہمارے پاس سارے فورم ہیں اور عدلیہ سمیت ہر جگہ جائیں گے، آج بھی جو نام ہم نے دیے ان کے ناموں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں کیونکہ ہم نے ملی بھگت سے نام نہیں دیے۔
اس موقع پر حکومتی کمیٹی کے رکن میاں اسلم اقبال نے کہا کہ ہم نے نگراں وزیر اعلیٰ پر فیصلہ کرنا تھا، نوید چیمہ، سکھیرا صاحب اور نصیر احمد خان کے نام سامنے رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کا کردار اچھا ہو اور انتظامیہ کا تجربہ ہو اسے آگے لایا جائے، احمد نواز سکھیرا ہمارے اور ان کے بھی کام کرتے رہے لہٰذا تجربہ کار لوگوں کو سامنے لایا جائے۔
کمیٹی کے تیسرے رکن ہاشم جواں بخت نے کہا کہ ایسا نگراں وزیر اعلیٰ ہونا چاہیے جس کا تجربہ ہو، ہمارے سارے نام غیر جانبدار ہیں، کاش اپوزیشن ہمارے ساتھ بات کرتی لیکن اب فیصلہ الیکشن کمیشن میں چلا گیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن کمیٹی کے اراکین کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری کوشش کی کہ کسی نام پر اتفاق ہوجائے لیکن افسوس ہے کہ بڑی اسمبلی میں چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں اور آئین میں واضح ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم دوران سروس کسی سیاسی عہدے پر تعینات نہیں کیا جاسکتا۔
اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن ملک احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ہم نے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے ناموں پر اڑے رہے۔
کمیٹی کے ڈیڈ لاک کے بعد دونوں جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل ہی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن آئندہ 48 گھنٹوں میں نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کا تقرر کردے گا۔
یاد رہے کہ 14 جنوری کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر از خود تحلیل ہوگئی تھی جبکہ گورنر بلیغ الرحمٰن نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے سمری پر دستخط نہیں کیے تھے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے بیان میں کہا تھا کہ ’پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد ایک متفقہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی اور قائدِ حزب اختلاف حمزہ شہباز کو مراسلے جاری کردیے گئے ہیں‘۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کی جانب سے نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے احمد نواز سکھیرا، سابق وزیر صحت نصیر خان اور سابق چیف سیکریٹری ناصر سعید کھوسہ کے نام تجویز کیے گئے تھے اور گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کے تجویز کردہ 3 نام اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو بھجوا دیے تھے۔
تاہم عمران خان اور چوہدری پرویز الہٰی کے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد کردہ 3 ناموں میں سے ایک ناصر محمود کھوسہ نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے صوبہ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے سید محسن رضا نقوی اور احد خان چیمہ کے نام تجویز کیے تھے۔
دونوں جانب سے مجوزہ ناموں پر اتفاق نہ ہونے پر تین، تین رکنی پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں تاکہ اس حوالے سے ڈیڈلاک ختم کر کے کسی نام پر اتفاق کیا جاسکے، تاہم آج اس حوالے سے ناکامی کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا ہے۔