’کالعدم ٹی ٹی پی پاک-افغان مضبوط تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے‘
ایک اہم تھنک ٹینک نے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ بن رہی ہے افغان پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے اور ایکشن پلان (این اے پی) اور انسداد دہشت گردی کے نظام کو سویلین بنانے پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں موجود پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے ہفتے کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ اجتماعی فیصلہ سازی کا مرکز ہے، پارلیمنٹ کو دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، اسے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنانا چاہیے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے موضوعات صرف سیکیورٹی ایجنسیوں کے خصوصی ڈومین نہیں ہونے چاہییں۔
’پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2022‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہے، وہ سال 2022 کے دوران پاکستان میں ہونے والے تشدد کے اکثر واقعات میں ملوث رہی جب کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ملک میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔
ملک میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں مسلسل دوسرے سال بھی اضافہ جاری رہا، پاکستان میں ایک سال میں کل 262 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 14 خودکش بم دھماکے بھی شامل تھے، ان دہشت گردانہ حملوں میں 419 افراد جاں بحق اور 734 افراد زخمی ہوئے۔
سیکیورٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان طالبان کے کابل میں برسر اقتدار آنے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کی پاکستانی ریاست کی مستقل خواہش نے عسکریت گروپ کو دوبارہ منظم ہونے اور ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کا حوصلہ دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ طالبان غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں جیسے القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ یا ترکستان اسلامک پارٹی اور ٹی ٹی پی کے خلاف اپنے وعدوں کے مطابق کارروائی کریں گے جب کہ افغان طالبان نے اب تک صرف داعش کے خلاف کارروائی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی، مقامی طالبان گروپس جیسے کہ حافظ گل بہادر گروپ، داعش اور اسی طرح کے دیگر مذہبی شدت پسند گروپوں نے 2022 میں پاکستان میں مجموعی طور پر 179 دہشت گرد حملے کیے جب کہ گزشتہ سال 128 حملے کیے تھے جن میں 250 افراد جاں بحق اور 262 زخمی ہوئے۔
2022 کے دوران مختلف بلوچ اور سندھی قوم پرست باغی گروپوں نے 79 حملے کیے جب کہ 2021 میں 77 حملے ہوئے جن میں 97 افراد جاں بحق اور 259 افراد زخمی ہوئے۔
سرحدز پار سے حملے
2022 کے دوران پاکستان میں سرحد پار سے 15 حملے ہوئے، ان میں سے 13 حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں افغانستان کے ساتھ ملک کی سرحد کے پار سے ہوئے، افغانستان کی حدود سے ہونے والے ان ان حملوں میں 20 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 34 افراد جاں بحق اور 52 زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ طالبان حکومت کے تحت افغان سرحدی افواج ماضی کے طرز عمل کے برعکس ایسے بہت سے واقعات میں ملوث ہیں جب کہ ماضی میں افغانستان سے زیادہ تر حملے کالعدم ٹی ٹی پی یا دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت کو قومی سلامتی پالیسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے مناسب طریقہ کار متعارف کرانا چاہیے، ایک اور سفارش کے مطابق سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور کردار کو بڑھانے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کے خطرات کو بڑی حد تک روک سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہونی چاہیے اور ان لوگوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہونے چاہییں جو تشدد چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ بلوچ اور سندھی قوم پرست باغیوں کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کے کچھ حصوں میں لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے انتہائی چوکس اور الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔