حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام مکمل کرے گی، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ موجودہ پروگرام مکمل کرے گی اور برآمدات میں اضافے کے لیے برآمد کنندگان کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت معاشی صورتحال کے بارے میں فنانس ڈویژن کا اہم اجلاس ہوا جہاں وزیراعظم نے معاشی ٹیم کو معشیت کے حوالے سے واضح اہداف دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام مکمل کرے گی۔
دوران اجلاس وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ حکومت کو تباہ حال معیشت ملی تھی جسے ہم نے دن رات کی محنت سے استحکام کیا۔
وزیراعظم نے آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو مالیاتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی اور انتظامی اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔
وزیراعظم نے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ برآمد کنندگان کو بندرگاہوں پر ضروری سہولیات، نئی مارکیٹس کی نشاندہی کے علاوہ خام مال اور مشینری کی درآمد میں ہر ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ آئی ٹی برآمدات کا حجم 2 ارب ڈالر ہے جس سے اینٹرپرینور اور نیا کاروبار شروع کرنے والوں کی مدد آسانی سے 5 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سہولیات کی فراہمی سے بیرون ملک پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ بینکنگ چینلز سے اپنی رقوم پاکستان بھیجیں۔
شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ توانائی کے شعبے پر پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ اصلاحات پرعمل کیا جائے جبکہ گردشی قرض میں کمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہا کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ گردشی قرض سے بھی نمٹنا ہے، اس کے علاوہ توانائی کی مقامی سطح پر پیداوار اور اضافے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ درآمدی ایندھن پر بتدریج انحصار ختم ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگے درآمدی ایندھن کی وجہ سے عام عوام پر بوجھ پڑتا ہے، لہٰذا ہمیں اپنے عوام کو ان تکالیف سے نجات دلانا ہوگی۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ توانائی کی بچت کے لیے عمومی رویوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی مہم شروع کی جائے اور عوام کو آگاہ کرنا ہے کہ توانائی کی بچت کرنا اس وقت قومی ضرورت ہے۔
اجلاس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ چار برس کے دوران پاکستان کی معیشت شدید بدنظمی ، تباہی و بربادی سے دوچار رہی ہے، حالانکہ جب سابق حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو 2018 میں ترقی کی شرح 6.1 فیصد تھی لیکن معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے بدترین گورننس اور معاشی بدانتظامی نے معشیت کو جمود کا شکار کردیا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ 2018 میں عوامی قرض 25 ٹریلین روپے تھا جو مارچ 2022 تک 42 مہینوں میں بڑھ کر 44.5 ٹریلین تک پہنچ گیا ہے اسی طرح دیگر معاشی اعداد و شمار بھی موجودہ حکومت کو انتہائی بری حالت میں ملے تھے مگر موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں صورتحال کو سنبھالا اور ملک کو معاشی استحکام دیا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ تباہ کن سیلاب کی کی وجہ سے پاکستان کی معاشی بحالی کے عمل کو دھچکا لگا ہے لیکن موجودہ حکومت نے تین کروڑ 30 لاکھ پاکستانیوں کی مدد میں معاشی مشکلات کا احساس نہیں ہونے دیا۔
اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ سیلاب کی صورتحال کے باوجود جس طرح موجودہ حکومت نے ملک میں غذائی اجناس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت نہیں ہونے دی اسی طرح ملک کو بتدریج معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے بھی کوششیں کی جائیں گی۔
وزیراعظم نے وفاق کے زیرانتظام تمام وزارتوں پر توانائی کی بچت کرنے اور کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے اخراجات پر قابو پانے پر زور دیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ، اقتصادی امور ڈویژن، وزیر منصوبہ بندی، وزیر دفاع کے علاوہ گورنراسٹیٹ بینک، حبیب بینک، الفلاح بینک کے صدور اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گی جبکہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے سے متعلق غور کیا گیا جبکہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے بھی مختلف اقدامات زیربحث آئے۔