فیفا ڈائری (23واں دن): قطر میں توقعات سے بڑھ کر سردی ہوچکی ہے
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
دوحہ میں سردی ہوگئی ہے اور ٹھیک ٹھاک ہوگئی ہے۔ میں نے آتے ہوئے ہلکی جیکٹیں ہی رکھی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہاں اتنی سردی نہیں ہوگی، لیکن یہاں ہوا بہت تیز چلتی ہے اور جب چلتی ہے تو لگ پتا جاتا ہے۔
سردی میں پھر سردی والے کپڑے بھی باہر آگئے ہیں۔ میں نے کچھ گرم شرٹس اور جو 2 ہلکی جیکٹیں اپنے ساتھ رکھی تھیں، مجھے امید ہے کہ ان کے سہارے میں یہ سردی برداشت کرلوں گا۔
کل کوئی پریس کانفرنس نہیں تھی اور میچ بھی رات میں تھے اس وجہ سے میں آرام سے اٹھا، ناشتے میں پیک دہی کھائی اور میڈیا سینٹر چلے گیا۔ وہاں کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہاں کافی چہل پہل ہوتی ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے میچ کور کرنے جارہا ہوتا ہے۔
میں نے اس مرتبہ مراکش کا میچ کور کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے پچھلی مرتبہ یہ افسوس ہوا تھا کہ میں نے رونالڈو کی وجہ سے مراکش کا میچ نہیں دیکھا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ میچ رونالڈو کا آخری میچ نہ ثابت ہوجائے۔ لیکن اس مرتبہ جب میں نے مراکش کا میچ کور کیا تو یہ واقعی رونالڈو کا آخری میچ بن گیا اور مجھے ایک ہی میچ میں 2 خبریں مل گئیں۔
میں جب میچ کے لیے اسٹیڈیم پہنچا تو بہت ہی تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے ایسی ہوا کا کبھی تجربہ نہیں کیا۔ لیکن اسٹیڈیم کے اندر کا ماحول اس سرد ہوا سے بالکل مختلف تھا۔ مراکش کے فینز بہت زیادہ پُرجوش تھے اور اسٹیڈیم میں خوب شور ہورہا تھا۔ مراکش وہ ٹیم ہے جو ہار نہیں مانتی، وہ اس وقت جیسا بھی کھیل رہے ہیں وہ ان کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہورہا ہے اور وہ جیت رہے ہیں۔ وہ بہت ہی پُراعتماد ہیں اور پوری عرب دنیا ان کے پیچھے ہے۔
کل مراکش کا کھیل دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ورلڈ کپ تو وہ لے جائیں گے۔ بہرحال ابھی انہوں نے دفاعی چیمنیئن فرانس سے بھی مقابلہ کرنا ہے۔ کل مراکش کے کھلاڑیوں اور کوچ سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ ابھی بھی بہت پُراعتماد ہیں۔ یہ اعتماد ضروری بھی ہے کیونکہ آپ جب ایک بڑی ٹیم کے ساتھ کھیل رہے ہوں تو یہی اعتماد آپ کو آگے لےجاتا ہے۔
میچ کے بعد مراکش کے کھلاڑیوں نے باہر آنے میں بہت وقت لگایا۔ وہاں ان کی فیڈریشن کے صدر اور دیگر بھی مبارکباد دینے مراکش کی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں موجود تھے۔ مراکش کی ٹیم اور فینز نے کل خوب جشن منایا، ظاہر ہے کہ وہ فیفا ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہچنے والی پہلی افریقی ٹیم بن گئی ہے۔
چونکہ فرانس کا میچ بھی دیکھنا تھا اس وجہ سے میں واپس میڈیا سینٹر آیا۔ میں نے ابتدا میں ایک تحریر میں اویسس نامی ایک ہوٹل کا ذکر کیا تھا جو صرف شام میں کھلتا ہے، کل فرانس کا میچ وہیں دیکھا اور وہ بھی آرام سے صوفے پر لیٹ کر بڑی اسکرین پر ۔
اس کے بعد میں گھر کی طرف واپس آیا، پاس ہی موجود ریسٹورنٹ میں رکا اور اور ٹھنڈے موسم میں گرم گرم چائے پی۔ اس کے بعد گھر آکر باقی خبروں پر کام کیا اور خبریں لکھتے لکھتے ہی کسی وقت نیند بھی آگئی۔