فیفا ڈائری (21واں دن): ’کل ریسٹ ڈے تھا اور ہم نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا‘
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
فیفا ورلڈ کپ میں ایکشن کو تو کچھ بریک لگا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اخبار کے صفحے کے لیے تو مواد پھر بھی درکار ہوتا ہے۔ اس لیے خبروں کی تلاش جاری رہتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ فیفا ہمیں ایک دن پہلے ہی یہ بتا دیتا ہے کہ اگلے دن کون کون سی پریس کانفرنس اور ٹریننگ سیشنز ہونے ہیں۔ اس وجہ سے آپ ایک دن پہلے ہی اگلے دن کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں۔
ہم نے کیونکہ پرتگال کے ردِعمل کی خبر نہیں لی تھی اس لیے وہ ضرور کرنی تھی اور پھر میں اس دن مکسڈ زون میں تھا جہاں سے رونالڈو اور پرتگال کے دوسرے کھلاڑی گزرے تھے اور میں نے ان سے بات بھی کی تھی تو اس کی ایک اسٹوری کرنی تھی۔
پھر کل نیدرلینڈز اور فرانس کی پریس کانفرنس بھی تھی اور وہ قریب قریب ہی تھیں یوں وہ دونوں کور کی جاسکتی تھیں۔
تو میں نے صبح اٹھ کر پرتگال والی خبر لکھی اس کے بعد میں نے ایک تجزیاتی اسٹوری لکھنی تھی وہ لکھی اور اس کے بعد میں نیدرلینڈز کی پریس کانفرنس کور کرنے چلا گیا۔ وہ پریس کانفرنس قطری وقت کے مطابق ساڑھے 4 بجے تھی۔
اتفاق سے ہم بھی ٹھیک ساڑھے 4 بجے وہاں پہنچے۔ اس وقت نیدرلینڈز کی ٹیم کے میڈیا منیجر جس راستے سے کھلاڑیوں کو لےجارہے تھے، ہم اسی راستے سے اندر جارہے تھے۔ تو انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ جلدی آئیں۔ بہرحال ہم پہنچ تو گئے لیکن وہاں بیٹھنے کی جگہ ختم ہوچکی تھی نتیجتاً میں نے فرش پر بیٹھ کر پریس کانفرنس کور کی۔
میرے ساتھ میرے دوست بھی تھے۔ تو یہ پریس کانفرنس کور کرنے بعد ہم نے اوبر لی اور فرانس کی پریس کانفرنس کور کرنے چلے گئے۔ اتفاقاً وہاں مجھے ایک نشست مل گئی تو میں نے آرام سے یہ پریس کانفرنس کور کرلی۔
اس کے بعد میں نے گھر واپس جاکر خبریں لکھیں اور یہ کام ختم کرتے کرتے رات کے 8 بج گئے۔ کل کیونکہ ریسٹ ڈے تھا اور باہر نکلنے کا موقع بھی تھا تو ہم نے اس کا فائدہ اٹھایا اور قطر کو انجوائے کیا۔
سب سے پہلے ہم سوق واقف میں ایک شیشہ کیفے گئے۔ یہاں قطر میں شیشہ ایک ثقافتی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم وہاں بیٹھے تھے کہ ہمارے ایک دوست بھی آگئے۔ ان کے دوست بھی ساتھ تھے جن کے پاس جیپ تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج آپ کو قطر کا صحرا دکھاتے ہیں۔ یوں ہم گھومتے گھماتے اور کوک اسٹوڈیو کے گانے سنتے، دوحہ سے دور زکریت کے ساحل کی جانب چل دیے۔ رات کے وقت وہ ساحل بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔
ہماری واپسی رات 2 بجے ہوئی، چونکہ تھکن سے ہمارا بُرا حال تھا اس وجہ سے ہم بس سوگئے۔