ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: خالی جہاز اور سُپرمین
اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ایک مرتبہ مجھے دفتر (بریفنگ روم) سے فون آیا۔ حکم صادر ہوا کہ خاور، لاہور سے اسلام آباد فیری ہے تیار ہوجائیں 20 منٹ تک گاڑی آپ کو لینے آجائے گی۔ میں نے پوچھا سر فیری (پھیری) پنجابی والی ہے یا انگریزی والی۔ کہنے لگے ہے تو پنجابی والی لیکن لگانی انگریزی میں ہے۔ اب آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کیا کہانی ہے۔
فیری (Ferry) فلائٹ وہ ہوتی ہے جس میں کوئی مسافر نہیں ہوتا۔ جی ہاں بالکل خالی جہاز۔ صرف عملے کا ایک رکن یا 2 اراکین اور پائلٹ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب جہاز کو کسی جگہ پوزیشن کرنا ہو یعنی جہاز کی مرمت اور ضروری دیکھ بھال کے بعد کہیں پہنچانا ہو یا نیا جہاز خرید کر اسے اپنے وطن لانا ہو۔ اس کے علاوہ حج کے زمانے میں زائرین کو جدہ پہنچا کر اور واپسی پر ان کو لینے کے لیے جاتے وقت جہاز فیری جاتا ہے۔ ( یہ قانون تمام ملکوں کی ایئرلائنز کے لیے ہوتا ہے کیونکہ حج کے دوران دوسرے ویزوں پر پابندی ہوتی ہے)۔
خیر پہلی بار خالی جہاز میں سفر کرنا تھا۔ عجیب سا لگ رہا تھا لیکن خوشی بھی ہو رہی تھی کہ ذمہ داری کم ہوگی اور پہلی بار پرواز اترنے کے بعد بھی جہاز اندر سے صاف ستھرا ہی ہوگا۔
جہاز پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کپتان صاحب پہنچ چکے ہیں۔ بریفنگ (پرواز سے متعلق کچھ ضروری معلومات) لے کر اپنی راج دھانی سنبھالنے کو کاک پٹ سے باہر نکل آیا۔
جہاز کے پرواز کرنے سے قبل تمام دروازے بند تو کرنے ہی پڑتے ہیں لیکن اس کے بعد انہیں ’آرم (ARM)‘ بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ آپ یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کمرے میں اکیلے ہوں تو چٹخنی لگا لیتے ہیں تاکہ آپ ’سکون کا سانس‘ لے سکیں یا کوئی ضروری معاملہ ’نمٹا‘ سکیں اور باہر سے کوئی اندر نہ آسکے۔
بس اسی طرح جب جہاز کا دروازہ ’آرم‘ کردیا جاتا ہے تو دروازے کے اندر موجود تہہ کی ہوئی ربڑ کی سلائیڈ خودکار نظام کے تحت اس بوتل سے جڑ جاتی ہے جو اب دروازہ کھلنے پر اس کو ہوا کے زبردست پریشر کے ذریعے کچھ ہی لمحوں میں کھول دینے کی صلاحیت رکھتی ہے تاکہ ہنگامی حالت میں (خشکی یا پانی پر) جہاز سے باہر نکلا جاسکے۔
باہر سے اندر جس عفریت کے آنے کا ڈر ہوتا ہے وہ دراصل ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔ جہاز کے ایک لمبے کیپسول کی مانند کمرے (Cabin) کے اندر ہوا کا دباؤ اتنا رکھا جاتا ہے جتنا 6000 سے 8000 فٹ کی بلندی پر ہوتا ہے۔ اس میں آپ آسانی سے سانس لے سکتے ہیں۔
ساری پرواز پر یہ ہوا کے کم دباؤ کا بھوت دانت نکالے اور بھنویں اچکاتے آپ کے جہاز سے باہر اس کے ساتھ ساتھ اڑتا رہتا ہے لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اڑتے جہاز کا دروازہ کسی صورت نہیں کھل سکتا۔ باقی زندگی موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے، ہیں جی!
عمومی طور پر جہاز کے دروازوں کی تعداد کے مطابق ان پر عملے کا ایک ایک رکن تعینات ہوتا ہے۔ یہ جہاز جس پر مجھے اکیلے سفر کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی تھی، ایئر بس کمپنی کا 6 دروازوں والا A-310 جہاز تھا۔ اب چونکہ میں اکیلا تھا لہٰذا جہاز کے 6 دروازوں کو چٹخنی لگانے کے ذمہ داری میری تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ کچھ زمینی عملہ اپنے پرکھوں کی ناموس کو بٹہ لگا کر کام چوری کی بے نظیر مثال پیش کرتے ہوئے سامان رکھنے کے تمام خانے (Hat Racks) کھلے چھوڑ گیا تھا۔ ان تمام ’حلال کاروں‘ کا گبر سنگھ کے پسندیدہ سست چوپائے سے شجرہ ملاتے ہوئے تقریباً 40 سے 45 خانے بند کرتا گیا اور واپس اپنی جگہ پر پہنچ گیا یعنی جہاز کے پہلے دروازے پر۔
کپتان صاحب نے پرواز کے اڑان بھرنے کا عندیہ دیا اور تھوڑی سی ہی دوڑ لگا کر جہاز ٹیک آف کر گیا۔ تھوڑی سی دوڑ اس لیے کہ جب کسی جہاز کا وزن زیادہ ہوتا ہے تو اسے رن وے پر زیادہ بھاگنا پڑتا ہے۔ جیسے اگر آپ پر چربی چڑھ جائے تو وزن کم کرنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑتی ہے لیکن اگر زیادہ وزن بڑھ جائے تو تگ و تین چار وغیرہ تک معاملہ پہنچ جاتا ہے۔ وزن کے حساب سے ہی جہاز کے ٹیک آف کرنے کی رفتار متعین کی جاتی ہے۔ اب جہاز پر نہ مسافر تھے اور نہ ہی سامان چنانچہ جہاز جلد اڑان بھرنے کے قابل ہوگیا۔
اڑان بھرنے سے پہلے جہاز کے اندر کی تمام بتیاں بجھا دی جاتی ہیں۔ میں بھی اپنی نشست پر تمام روشنیاں گل کرکے بیٹھا ہوا تھا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ باہر کا منظر، خاص طور پر رات کو نظر آسکے۔ یہ ہنگامی حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ رات کے وقت ٹیک آف یا لینڈ کرتے ہوئے جہاز کو کوئی ہنگامی حالت درپیش ہو تو اگر اندر روشنی ہوگی تو باہر کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہنگامی حالت میں جہاز کے باہر برپا ہونے والی صورتحال کو دیکھ کر ہی عملہ یہ فیصلہ کر پاتا ہے کہ مسافروں کو باحفاظت کس طرح جہاز سے نکالا جائے۔
اس گھپ اندھیرے میں زمین سے ہزاروں فٹ اوپر اڑتے ہوئے اکیلے جہاز کے اندر ایک کونے میں بیٹھا ہوا میں یہ سوچ رہا تھا کہ بے چارہ سُپرمین بھی اسی حالت سے دوچار ہوتا ہوگا۔ اس کے ساتھ بھی دورانِ پرواز کوئی باتیں کرنے والا نہیں ہوتا۔ خیر میرے خیال سے اس میں سُپرمین کا قصور بھی ہے۔ لوگ بھی کہتے ہوں کہ دیکھو بھلا نیلی پتلون پر شوخ لال زیرِ جامہ کون پہنتا ہے۔ بلکہ یہ تو ’زبر جامہ‘ پہنتا ہے۔ سُپرمین کو اس بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔
میں تو کہتا ہوں کہ اگر سُپرمین عملے میں بھرتی ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ایک وقت میں کئی کام نمٹا لینے اور بیسیوں لوگوں کی باتیں بیک وقت سننے کے ساتھ ساتھ وہ تو کھانا بھی اپنی آنکھوں سے گرم کر لے گا۔
لیکن سُپرمین نے اگر تحمل مزاجی قائم نہ رکھی تو شاید وہ اپنی آنکھوں سے کچھ مسافروں کو بھی گرم۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ جلا ڈالے گا۔ سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ یونیفارم پہن کر سُپرمین کی اپنے ململ کے لال دوپٹے سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب بھلا بتائیں کہ اچھا خاصا جوان آدمی ہر جگہ ’ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا، ہو جی ہو جی‘ گاتا اچھا تو نہیں لگتا نا۔۔۔ ہیں؟
خیر میں نے ٹیک آف کے بعد تمام بتیاں جلادیں کیوں کہ خالی اور اندھیرے جہاز کے اندر غیر مرئی مخلوقات کے نظر آنے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ چھوٹی سی پرواز اچھی گزر گئی۔
اسلام آباد پہنچ کر مجھے ایک رات رکنا تھا کیونکہ لاہور واپسی کے لیے اس وقت کوئی پرواز نہیں تھی۔ رات بڑی بے چین گزری۔ کبھی لگتا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ہے اور کبھی محسوس ہوتا تھا کہ غسل خانے کا نل کھل گیا ہے۔ لگتا تھا جیسے غیر مرئی مخلوق جہاز سے میرے ساتھ ہی اتر آئی تھی۔ کمرے میں ایسا لگ رہا تھا کہ بقول شاعر ’وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے‘.
خیر جیسے تیسے کرکے رات بھی گزر گئی اور واپسی کا وقت ہوگیا لیکن اس مخلوق نے رات بھر اتنا تنگ کیا جیسے وہ غیر نہیں بلکہ ’اپنی‘ ہو۔