نیب ترامیم سماعت: عمران خان کے وکیل کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ حکمران عوامی اعتماد سے منتخب ہوتے ہیں اور شریعت کے مطابق عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لیے احتساب ضروری ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ جب حکمران اپنے عمل پر پردہ ڈالتے ہیں تو عوامی اعتماد ٹوٹتا ہے، نیب ترامیم کے تحت کسی تھرڈ پارٹی کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچانا اب جرم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈرز کی پراپرٹی عوامی ملکیت ہوتی ہے اور اس میں کرپشن سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے دلائل کے مطابق تو نیب ترامیم منظور کرنے والی پارلیمان نے عوامی اعتماد توڑا ہے، اس طرح تو نیب ترامیم منظور کرنے والے تمام اراکین کو آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل ہو جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو کل (8 دسمبر) تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کو درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سوال اٹھایا تھا کہ عدالت عظمیٰ آخر کس اختیار کے تحت بنیادی حقوق کی بنیاد پر احتساب کا سخت قانون بنانے کا حکم دے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام میں حکومتی عہدیداروں کے احتساب کا حکم ہے، اسلام کے مطابق کسی بھی ملک میں ہونے والی ناانصافی کا ذمہ دار حکمران ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا تھا کہ عمران خان کے سوا کسی اور سیاسی جماعت یا شہری نے نیب ترامیم چیلنج نہیں کیں، پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے عمران خان ہی نیب ترامیم سے متاثر کیوں ہوئے۔
’نیب ترامیم‘
خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔