فیفا ڈائری (19واں دن): ’کل کا دن بھارتی صحافی دوستوں کے ساتھ گزرا‘
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
کل کا دن فیفا ورلڈکپ کی کوریج کے لیے آنے والے اپنے بھارتی صحافی دوستوں کے ساتھ گزرا۔ کل ہمیں کچھ وقت ملا تو اس دوران ہم نے اپنی انڈو پاک دوستی کی ایک تصویر بھی لی۔
ویسے تو عمر اور تجربے کے اعتبار سے سدھارتھ سکسینا، انگشومن رائے اور دھیمان سرکار کافی بڑے ہیں، لیکن جب 2014ء میں برازیل کے ورلڈ کپ میں ہم پہلی بار ملے تو شاید کام کی نوعیت ایک جیسی ہونے کی وجہ سے ہماری دوستی ہوگئی۔ جب آپ اپنے ملک کے سب سے بڑے اخبار کے لیے کام کرتے ہیں تو اس کا دباؤ بہت ہوتا ہے۔ وہاں پھر آپ کو خیال کرنا ہوتا ہے کہ سب نے کام کرنا ہے اور سب کے پاس ڈیڈ لائنز ہیں۔
بھارت سے کئی صحافی آتے ہیں لیکن سب کے پاس زیادہ کام یا پھر ڈیڈ لائنز نہیں ہوتیں۔ ان میں سے اکثر لوگ صرف اپنے خرچے پر مزے کرنے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمیں کیونکہ ادارے بھیجتے ہیں تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہمیں کام بھی کرنا ہے۔ شاید اسی وجہ سے برازیل میں ہمارا تعلق بنا۔ دھیمان اور انگشومن تو روس والے ورلڈ کپ میں نہیں آئے تھے اور سدھارتھ بالکل آخر میں آئے تھے لیکن اس مرتبہ ہم دوبارہ ساتھ ہیں۔
کل ہمیں صرف ایک میچ کور کرنا تھا اور وہ کافی طویل ہوگیا جس میں کروشیا کو فتح حاصل ہوئی۔ افسوس اس بات کا تھا کہ جاپانی کھلاڑیوں نے اگرچہ بہت اچھا کھیلا اور ان کے فینز بھی بہت پُرجوش تھے لیکن جاپان شکست سے دوچار ہوا۔
کل ہم سب نے خبریں بھیج دی تھیں اور ہم برازیل والا میچ کور نہیں کررہے تھے، اس وجہ سے ہمارے پاس وقت تھا۔ کل ہم اسی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے گئے جہاں پرسوں گئے تھے۔ بس اس مرتبہ ہم ذرا جلدی گئے تھے۔ سدھارتھ کی طبعیت کچھ دنوں سے ناساز تھی جس وجہ سے وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے نہیں جاتے تھے لیکن کل وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ بہت سارا کھانا آرڈر کرتے ہیں اور کل بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ بیف کری اور چکن باربی کیو کھانے کے بعد سب سے اچھی چیز تھی گرم چائے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے باعث ہماری ملاقات 4 سال فیفا ورلڈکپ میں یا پھر کسی دوسرے فٹبال ایونٹ میں ہی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری دوستی ایسی ہے کہ باتیں کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں اتنی چیزیں مشترک ہیں کہ بات کرنے کے لیے بہت سے موضوعات ہوتے ہیں۔ ان میں سیاست، کھیل، آرٹ، فلم، میوزک، ڈرامہ سبھی شامل ہوتے ہیں، بس افسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ملک میں جا نہیں سکتے۔
باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور جب کھانا کھا کر واپس گھر پہنچے تو صبح کے 5 بج رہے تھے۔