• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پی ٹی آئی، امریکا کے ساتھ ’خوشگوار تعلقات‘ کی بحالی کیلئے کوشاں

شائع November 30, 2022
فواد چوہدری نے اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی—فائل فوٹو:ڈان نیوز
فواد چوہدری نے اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی—فائل فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف کے نائب صدر فواد چوہدری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کی یہ ملاقات اس لیے اہم ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے چند ہفتوں قبل ہی امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جب کہ اس کے برعکس ماضی میں وہ امریکا پر پاکستان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکی سازش شامل کی تھی۔

فواد چوہدری نے ڈان کی جانب سے ملاقات کی تصدیق کرنے کے لیے رابطہ کرنے پر کہا کہ یہ معمول کی ملاقات تھی، اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے، انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا بات چیت اور ملاقات کے دوران ان کے ساتھ ملاقات میں دیگر لوگ بھی شریک تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فواد چوہدری کی ڈونلڈ بلوم کے ساتھ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی اور مبینہ طور پر رواں ماہ کے دوران پی ٹی آئی رہنما کی امریکی سفارت کار سے یہ دوسری ملاقات تھی۔

چند ماہ قبل پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت کار کے بھیجے گئے سفارتی سائفر کو بنیاد بنا کر امریکا پر ان کی حکومت کے خاتمے کا الزام لگایا تھا، ان کے یہ بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وہ سوال اٹھاتے تھے کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے مبینہ طور پر مختلف مواقع پر امریکی سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیوں کیں، انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی ان ملاقاتوں کو ’غیر اخلاقی‘ اور ’غیر ضروری‘ قرار دیا تھا۔

عمران خان کے ان بیانات پر اس وقت سرکاری حلقوں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا جب کہ غیر ملکی سفارت کاروں کا حکومتی اور اپوزیشن دونوں فریقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے ملنا عام رواج اور معمول کا حصہ رہا ہے اور عام طور پر ان ملاقاتوں کی نوعیت کے پیش نظر ان کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ کم ہی شیئر کی جاتی ہیں۔

اسد عمر کی جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ پر کڑی تنقید

دوسری جانب مرکزی سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر نے نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر پر زور دیا کہ وہ فوج اور قوم کا کھویا ہوا اعتماد بحال کریں، وہ اعتماد جو ان کے بقول گزشتہ 8 ماہ کے دوران کیے گئے فیصلوں سے بری طرح مجروح ہوا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں اسد عمر نے گزشتہ روز ریٹائر ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سیاسی انتشار، بکھرتی معیشت اور اپنے فیصلوں سے فوج اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے رشتے میں دراڑیں ڈالنے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسد عمر نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کی اولین ترجیح قوم اور فوجی قیادت کے درمیان احترام و محبت کا رشتہ بحال کرنا ہے، نہ یہ رشتہ یک طرفہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی طاقت اور جبر سے حاصل ہو سکتا ہے، 8 ماہ کے فیصلوں نے اس رشتے کو بری طرح ٹھیس پہنچائی، ملک کا دفاع کرنے والے فوجی پر قوم آج بھی ناز کرتی ہے۔

’کیا کبھی کسی فوجی افسر کو حلف کی خلاف ورزی پر جوابدہ ٹھہرایا گیا‘

ادھر پی ٹی آئی کی سینئر نائب صدر شیریں مزاری نے زور دے کر کہا کہ ریاست معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ سکتی، فوری طور پر سول ملٹری تعلقات کو آئین کے مطابق مکمل طور پر از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو میں نئی قیادت کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر ڈیمیج کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ یہ ڈیمیج کنٹرول اغوا کرنے، قتل کی سازشوں میں ملوث ہونے، مشتبہ ملزمان پر ایف آئی آرز کرانے سے روکنے، زیر حراست تشدد کرنے، ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرنے، کسی فرد کے تنقیدی ٹویٹ کو بنیاد بنا کر اس پر بغاوت پر اکسانے جیسے الزامات لگانے شروع نہیں ہوگا۔

شیری مزاری نے جبری گمشدگیوں کے فوری خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ کو ان کے پیاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں، انہوں نے عسکری قیادت پر سوال اٹھایا کہ ان میں سے کتنے اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہیں، انہوں نے پوچھا کیا کبھی کسی افسر کو حلف کی خلاف ورزی پر جوابدہ ٹھہرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میر جعفر ہماری تاریخ کا ایک حقیقی کردار ہے لیکن اس بارے میں سوال اٹھانے والوں کو کو اغوا کیا جا سکتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا اس سے بھی بدتر سلوک کیا جا سکتا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اعظم سواتی کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں 21 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلوں اور احکامات کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024