فیفا ڈائری (11واں دن): ہم نے پہلی مرتبہ قطر میں بریانی کھائی
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
کل کا اہم میچ اسپین اور جرمنی کا تھا اور گزشتہ روز کے ارجنٹینا اور میکسیکو کے میچ کی طرح اس میچ کی سیٹ کے لیے بھی تقریباً تمام صحافیوں نے ہی درخواست دی ہوئی تھی۔ چونکہ دونوں ممالک یورپی تھے اس لیے اس میچ میں UEFA کانفیڈریشن کے صحافیوں کو ترجیح دی گئی۔ پھر باقی شریک ممالک کے صحافی ترجیح تھے اور پھر ہمارا نمبر تھا۔
صبح میں نے بیلجیئم اور مراکش کا میچ بھی کور کیا جو کمال کا میچ تھا۔ جب کمزور سمجھے جانے والی کسی ٹیم کی جیت ہوتی ہے تو خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ میچ کور کرنے میں مزا بھی آتا ہے۔ مراکش کی جیت بہت متاثرکُن تھی لیکن توقع یہی تھی کہ اسپین اور جرمنی کا میچ بہترین ہوگا۔
اس اہم میچ کے لیے ہم نے ویٹ لسٹ میں درخواست دی ہوئی تھی۔ تو میں مراکش اور بیلجیئم کے مقابلے کے بعد میڈیا سینٹر آیا اور میڈیا کو جس کاؤنٹر پر ٹکٹ دیے جاتے ہیں، وہاں گیا۔ اس وقت تک مجھے کوئی ای میل موصول نہیں ہوئی تھی کہ فیفا کی جانب سے میری درخواست منظور کی جا چکی ہے۔
جیسا ایک دن پہلے میرے دوست یعنی ٹائمز آف انڈیا کے صحافی سدھارتھ سکسینا کے ساتھ ہوا تھا میرے ساتھ کل کچھ ایسا ہی ہوا۔
میں ٹکٹ کاؤنٹر پر پہنچا تو عملے کے ایک فرد نے مجھے آواز دے کر کہا، ’مسٹر وسیم، آپ یہاں آجائیں‘۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے کہا کہ سر آپ کی شرکت کی درخواست منظور کی جاچکی ہے، میں آپ کا ٹکٹ لے کر آتا ہوں۔
اس شخص نے دلچسپ جملہ یہ کہا کہ، ’سر آپ تو یہاں کے ’ڈان‘ ہیں تو ہم کیسے آپ کو یہ میچ دیکھنے نہیں دیتے‘۔
سچ پوچھیے تو ادارے کو ملنے والی اس عزت سے خوشی محسوس ہوتی ہے اور اچھا لگتا ہے کہ بڑے میچوں کے لیے آپ کی شرکت کی درخواست کو مسترد نہیں کیا جاتا۔ ویٹ لسٹ میں انتظار ضرور کرواتے ہیں لیکن رد نہیں کرتے۔
میرے علاوہ اس میچ کے لیے سدھارتھ سکسینا، دی ہندو سے تعلق رکھنے والے آیون داس گپتا اور ٹیلی گراف کے میرے صحافی دوست انشومن روئے کی بھی درخواست منظور کرلی گئی۔
اچھا مزے کی بات یہ کہ عموماً ہمیں اوپر اسٹینڈ میں سیٹ دی جاتی ہے لیکن اس میچ میں مجھے سب سے آگے والی سیٹیں دی گئیں جنہیں فرنٹ رو کہا جاتا ہے۔
یہ میچ مجھے بہت توجہ سے دیکھنا تھا کیونکہ اسپین اور جرمنی ایسی ٹیمیں ہیں جن کا میچ ان کے کھیل کی وجہ سے سب ہی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ٹیموں کی حکمتِ عملی، پاسنگ اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کو دیکھا جاسکے۔ تو جب مجھے اس میچ کے لیے سامنے کی صف میں سیٹ ملی تو میری خوشی دیدنی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ 2014ء کے برازیل عالمی کپ کے افتتاحی میچ میں بھی فیفا نے مجھے پہلی صف کی سیٹ دی تھی۔ سامنے کی صف کی سیٹ میں تھوڑا وی آئی پی والا احساس اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کیونکہ وہاں فیفا کے صحافی بیٹھتے ہیں جن میں سے کچھ میرے دوست بھی ہیں۔ اور یہاں دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز جیسے رائٹرز اور اے ایف پی کے صحافی بھی موجود ہوتے ہیں۔
کل کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ مراکش اور بیلجیئم کے میچ سے فارغ ہونے کے بعد میں نے یہاں بریانی کھائی۔
ہم کراچی والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں کہیں اور کی بریانی پسند نہیں آتی۔ یہاں بریانی، کابلی پلاؤ اور زیرے والے چاولوں کا مرکب تھی جس میں بریانی کا ذائقہ ڈال دیا گیا تھا۔ خیر بھوک لگ رہی تھی اس لیے ہم نے میڈیا سینٹر کی یہ بریانی کھائی۔ جس کے بعد ہم اسپین اور جرمنی کا میچ دیکھنے چلے گئے تھے جو کافی دلچسپ رہا اور مقابلہ 1-1 سے برابر رہا۔
تبصرے (2) بند ہیں