میرے خیال میں صدر آرمی چیف کی تعیناتی پر ’تنازع‘ چھوڑنا نہیں چاہیں گے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر تنازع چھوڑنا نہیں چاہیں گے۔
ڈان نیوزکے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہزیب‘ کے ساتھ میں وزیر دفاع سے پوچھا گیا کہ کیا صدر آرمی چیف کی اہم تعیناتی کی سمری میں چند دنوں تک تاخیر کرسکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ صدر مملکت کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں چھوڑنا چاہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ وہ اپنی صدارت میں جھگڑے والی تاریخ یا تنازع نہیں چھوڑنا چاہیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے نئے آرمی چیف آف اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تعیناتی کے حوالے سے براہ راست رابطے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے پورے عمل میں حکومت اور فوج کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، جس میں وزیر اعظم کو سمری بھیجنا اور تاریخیں بھی شامل ہے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر دو، تین ماہ قبل جلدی انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟ اس کے جواب میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ میں اس پر کوئی رائے تو نہیں دے سکتا لیکن ہمارے پی ٹی آئی کے ساتھ غیر رسمی رابطے ہیں، تحریک انصاف میں مختلف آرا رکھنے والے لوگ ہیں، کئی ایسے لوگ جو چاہتے ہیں کہ حالات طریقے کے ساتھ چلیں اور بات چیت کے ذریعے راستہ ڈھونڈا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے چند اراکین کے ساتھ ہماری سینئر لیڈرشپ کے غیر رسمی رابطے ہیں، اگر سنجیدگی کا مظاہرہ ہوا تو مذاکرات آگے بڑھ بھی سکتے ہیں۔
موجودہ آرمی چیف سے تعلقات کی بابت خواجہ آصف نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا اپنے فوجیوں کے ساتھ قریبی اور غیر رسمی تعلق ہے، انہیں لوگ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے اور فوج کو سیاست سے الگ رکھنا بہت بڑی لیگیسی ہوگی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے سے معتلق سوال پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ان لوگوں تک پہنچ گئے ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے ٹیکس گواشورں میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ریکارڈ میں ہے، تو پھر کسی اعتراض کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ میرا خیال ہے جس نے 35 سے 40 سال فوج کی ملازمت کی ہو اور بڑے بڑے عہدوں پر رہے ہوں تو ان کے پاس اثاثوں کی وضاحت 200 فیصد ان کے پاس ہوگی۔