بلوچستان میں 6 سالہ بچی کی جبری شادی، وفاقی شرعی عدالت نے رپورٹ طلب کرلی
وفاقی شرعی عدالت بلوچستان میں 6 سالہ بچی کی جبری شادی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل وفاقی شرعی عدالت کے بینچ نے جبری شادی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
بلوچستان کے لا آفیسر نے واقعے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جن سے صوبائی اسمبلی کی جانب سے کم عمری کی شادی اور جبری شادی کی روک تھام کے لیے اقدامات کے حوالے سے استفسار کیا گیا۔
انہوں نے خضدار پولیس اور بلوچستان کے محکمہ سماجی بہبود کی جزوی رپورٹ پیش کی اور کم عمری کی شادیوں سے متعلق مجوزہ قانون کی موجودہ صورتحال سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے لا آفیسر کو ہدایت کی کہ وہ اس قانون سازی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ اور اس قانون سازی کا مسودہ اگلی سماعت پر یا اس سے قبل پیش کریں۔
بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 28 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
ایک اور درخواست میں وفاقی شرعی عدالت نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ایکٹ کے خلاف درخواست کو خارج کر دیا۔
درخواست میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ایکٹ 1952 کے سیکشن 28، 29 اور 30 کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں اسلامی احکام کے منافی قرار دیا گیا تھا۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 1952 کا ایکٹ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ریپیل) ایکٹ 2018 کے ذریعے پہلے ہی منسوخ کیا جا چکا ہے۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ چونکہ مذکورہ قانون پہلے ہی منسوخ ہو چکا ہے اس لیے دائر درخواست بے اثر ہو گئی لہٰذا اسے خارج کیا جاتا ہے۔
تاہم وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے اس بات پر اظہار افسوس کیا گیا کہ زیر بحث قانون (یعنی 2018 کا ایکٹ) بظاہر ایک لائن پر مشتمل قانون تھا لیکن پھر بھی قانون سازی کے مسودے میں اس میں سنگین غلطی ہوئی، اس غلطی نے اس قانون کے نفاذ کی حکمت کو غیرمؤثر بنادیا۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ریاست قوانین کے مسودے میں معمولی غلطی کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے سنگین قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
بینچ نے سیکرٹری قانون و انصاف کو ہدایت کی کہ وہ حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے مسودے میں خصوصی احتیاط یقینی بنائیں کیونکہ صرف ایک لفظ کی غلطی کے سبب اُس قانون کا اصل مقصد ہی کھو سکتا ہے۔