فیفا ڈائری (دوسرا دن): قطریوں کو ورلڈ کپ کا بخار آخر کب چڑھے گا؟
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
آج کا ایک اہم ایونٹ فیفا ورلڈ کپ کی دفاعی چیمپیئن فرانس کی پریس کانفرنس تھی۔ پریس کانفرنس کا وقت 12 بجے کا تھا لیکن اس سے پہلے سب سے اہم کام جمعے کی نماز کی ادائیگی کا تھا جس کا قطر میں وقت ساڑھے 11 بجے ہوجاتا ہے۔
میں نے ماضی میں جتنے ورلڈ کپ کور کیے ہیں ان کی نسبت قطر کا ورلڈ کپ اس وجہ سے مختلف ہے کہ اسلامی ملک ہونے کے باعث یہاں مساجد بہت ہیں اور نماز کی ادائیگی میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوتی۔
جمعے کی نماز ادا کرنے کے بعد فرانس کی پریس کانفرنس کور کرنے پہنچا اور ظاہر ہے کہ فرانس کے دفاعی چیمپئین ہونے کے ناطے یہ ایک اہم پریس کانفرنس تھی۔
اس پریس کانفرنس میں فرانس کے 2 کھلاڑی لوکس ہرنینڈز اور ایڈرین رابیوٹ موجود تھے۔ یہ اچھی پریس کانفرنس رہی۔ چونکہ فرانس دفاعی چیمپئن ہے اور اس مرتبہ اس کے کئی کھلاڑی انجری کا شکار ہیں لہٰذا اس پر دباؤ بھی کچھ زیادہ ہے۔ پریس کانفرنس میں بھی یہی بات ہوئی کہ اس صورتحال میں فرانس کس طرح کھیلے گا۔ فرانس کی پریس کانفرنس کور کرنے کے بعد میں ویلز کی پریس کانفرس میں بھی گیا۔
پریس کانفرنس کے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے دوست کے ساتھ کچھ کام نمٹانے چلا گیا۔ ان میں سب سے اہم کام یہ تھا کہ قطر کے ایئرپورٹ پر ہمیں جو مفت موبائل سم ملی تھی اسے ری چارج کروانا تھا۔ ہم نے سم ری چارج تو کروالی لیکن ابھی بھی جو انٹرنیٹ میرے پاس ہے وہ صرف 14 دن کے لیے ہے۔ یعنی اس ورلڈکپ کے دوران مجھے درمیان میں ایک بار پھر اسے ری چارچ کروانا پڑے گا۔ یہ مسئلہ صرف ووڈا فون کی مفت سم کے ساتھ ہے، اگر آپ اووریڈو کی سم لیں تو آپ کو پورے مہینے کا انٹرنیٹ مل سکتا ہے۔
اس کے بعد ہم دوحہ کارنیش گئے۔ یہ کارنیش ٹریفک کے لیے بند ہے اور ہم نے سوچا تھا کہ یہاں ہمیں شائقین کی بڑی تعداد نظر آئے گی مگر وہاں امید سے بہت کم لوگ تھے۔
یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک شاہراہ کا حصہ خصوصی طور پر شائقین کے لیے مختص کیا گیا جسے برقی قمقموں اور ورلڈ کپ کی برینڈنگ سے سجایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اطراف کی عمارتوں پر بھی فٹبال کھلاڑیوں کی جہازی سائز کی تصاویر بھی لگائی گئیں لیکن اس شاہراہ پر اکا دکا افراد ہی نظر آئے۔ یہ ورلڈ کپ دنیا کے کسی اور حصے میں ہورہا ہوتا تو یقینی طور پر وہاں یہ جگہ بھری ہوئی ہوتی۔
اس حوالے سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے شائقین قطر کے بجائے دبئی میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہ میچ دیکھنے کے لیے دبئی سے یہاں آئیں گے اور پھر واپس دبئی چلے جائیں گے کیونکہ دبئی میں رہائش سستی ہے اور وہاں پابندیاں بھی کچھ کم ہیں۔
ورلڈ کپ میں اب بس 2 دن ہی رہ گئے ہیں اور قطر نے اپنے آپ کو سجایا بھی خوب ہے لیکن اب تک شائقین کا رش نظر نہیں آیا۔ امید یہی ہے کہ جیسے جیسے ورلڈ کپ قریب آئے گا تو شاید لوگوں میں جوش و خروش بھی بڑھے گا۔ تو دیکھتے ہیں یہاں لوگوں کو ورلڈ کپ کا بخار کب چڑھتا ہے۔
جہاں تک قطر میں کھانے پینے کا تعلق ہے تو یہاں کوئی مخصوص قطری کھانے نظر نہیں آتے بلکہ عرب اور جنوبی ایشیائی کھانوں کا ایک مرکب سا نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں جتنے ریسٹورنٹس ہیں ان میں سے زیادہ تر بھارتی ریسٹورنٹس ہیں۔ عمومی طور یہاں آپ کو باربی کیو، پراٹھہ رول، شوارما وغیرہ مل جاتا ہے، یوں کھانے کے حوالے سے یہ ورلڈ کپ بہت حد تک پاکستان جیسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں