سری لنکا کو شکست دینے کے بعد بھی آسٹریلیا کی مشکل میں کمی کیوں نہ ہوسکی؟
نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ہی میچ میں آسٹریلیا کو جتنی بُری شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اس نے میزبان پر بے تحاشہ دباؤ ڈال دیا تھا۔ ظاہر ہے جب پہلے ہی میچ کے بعد کسی ٹیم کا نیٹ رن ریٹ منفی ساڑھے چار (4.450-) تک پہنچ جائے تو کچھ غیر معمولی کرنے کی ضرورت تو ہوتی ہے، اور وہی غیر معمولی کھیل مارکس اسٹوئنس نے پیش کیا۔
اب آسٹریلوی ٹیم کے لیے سیمی فائنل تک پہنچنے کے 2 ہی راستے ہیں، یا تو اپنے بقیہ تمام میچ جیت کر رین ریٹ کے سہارے سے جان چھڑ والے، یا پھر اپنے رن ریٹ کو مسلسل بہتر کرتی رہے، تاکہ اگر سپر 12 میں کسی ٹیم کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر برابری کا سامنا ہو بھی جائے تو رن ریٹ کی وجہ سے تکلیف نہ ہو۔
اس میچ میں مدِمقابل سری لنکا کا میچ سے پہلے اعتماد آسمان سے باتیں کررہا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے آخری 9 ٹی20 مقابلوں میں سے 8 میں کامیابی حاصل کر رکھی تھی جن میں ایشیا کپ کا فائنل بھی شامل تھا۔ پھر سپر 12 کے پہلے ہی میچ میں آئرلینڈ کو 15ویں اوور میں شکست دے کر اس نے اپنا رن ریٹ 2.467 تک پہنچا دیا تھا۔
سری لنکا کے خلاف آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کسی حد تک حیران کن تھا کیونکہ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پہلی بیٹنگ کی جائے اور بڑا ٹوٹل کرکے سری لنکا کو جلد آؤٹ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ رن ریٹ میں بہتری بھی ممکن ہوسکے۔
بہرحال، آسٹریلیا کا یہ فیصلہ دوسرے ہی اوور میں ٹھیک معلوم ہونے لگا جب پیٹ کمنز نے اہم بیٹسمین کوسال مینڈس کو پویلین کی راہ دکھائی، مگر دوسری وکٹ کے لیے اوپنر پتھوم نسانکا اور دھننجایا ڈی سلوٰی نے 69 رنز کی شراکت داری قائم کرکے ٹیم کو سہارا دیا۔ اگرچہ رنز بنانے کی رفتار سُست تھی مگر وکٹیں ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے یہ امید تھی کہ بعد میں آنے والے رنز کی رفتار کو تیز کرلیں گے، مگر اگلے 6 اوورز میں سری لنکا کی 5 وکٹیں گر گئیں اور 16ویں اوور کے اختتام تک سری لنکا کا اسکور 5 وکٹوں کے نقصان پر صرف 111 رنز تھا۔
اس موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ آسٹریلوی کپتان کا ہر فیصلہ ٹھیک ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے 16ویں اوور میں گلین میسکویل کو لانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنے پہلے ہی اوور میں کپتان ڈاسون شناکا کی وکٹ حاصل کرلی۔ ویسے تو شناکا کے لیے سال 2022ء بہت اچھا ثابت ہوا جہاں انہوں نے 142 کے اسٹرائیک ریٹ سے 456 رنز بنائے، مگر یہ ورلڈ کپ ان کے لیے اب تک ایک بُرا خواب ثابت ہورہا ہے کیونکہ انہوں نے اب تک کھیلی جانے والی 4 اننگز میں بالترتیب 29، 0، 8 اور 3 رنز بنائے ہیں۔
بہرحال، آخری 4 اوورز میں وکٹ پر موجود چریتھ اسالانکا اور ونندو ہاسارنگا سے امید تھی کہ شاید وہ ٹیم کو اچھا اختتام فراہم کرسکیں۔ اگرچہ 18ویں اوور میں ہاسارانگا تو صرف ایک رن بناکر آوٹ ہوگئے مگر اسالانکا نے ٹیم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ان اہم آخری اوورز میں سری لنکا نے 46 رنز بنالیے۔ ان 46 رنز میں آخری اوور میں بننے والے 20 اہم ترین رنز بھی شامل تھے۔ اس ملی جلی کوشش کے بعد سری لنکا نے آسٹریلیا کو 157 رنز کا ہدف دیا۔
ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا بہت اچھا آغاز فراہم نہیں کرسکا اور 26 رنز پر ہی ڈیوڈ وارنر کی صورت پہلی وکٹ گرگئی، جنہوں نے 10 گیندوں پر 11 رنز بنائے۔ ان 26 رنز میں بھی 11 رنز اضافی رنز (ایکسٹراز) کے تھے۔
دوسری طرف کپتان ایرون فنچ نے ایک بار پھر مایوس کیا اور 42 گیندوں پر صرف 31 رنز بنائے، اگر مارکس اسٹوئنس آج یادگار اننگ نہیں کھیلتے تو فنچ کی اننگ سری لنکا کو حیران کن فتح بھی دلوا سکتی تھی۔
کپتان کی طرف سے ملنے والے آغاز کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ کا یہ تیسرا میچ بن گیا جس کے پاور پلے میں کسی ٹیم نے کوئی ایک باؤنڈری بھی اسکور نہیں کی۔ اس سے پہلے یہ 2014ء میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے میچ میں ہوا تھا اور دوسری مرتبہ 2021ء میں پپوا نیو گینی بمقابلہ بنگلہ دیش کے میچ میں ہوا تھا۔
مزے کی بات یہ کہ تیسرے نمبر پر آنے والے مچل مارش بھی کپتان کے نقش قدم پر چلنے کا پورا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی 10 گیندوں پر صرف 3 رنز بنائے اور اس دباؤ سے نکلنے کے لیے دھننجایا ڈی سلوٰی کی گیند پر اونچا شاٹ کھیلا مگر کپتان شناکا نے ان کا کیچ چھوڑ دیا۔ اگلے اوور میں مارش نے 12 رنز حاصل کیے تو لگا کہ سری لنکا سے بڑی غلطی ہوگئی، مگر دھننجایا نے اپنے اگلے ہی اوور میں مارش کی اننگ تمام کردی۔
لیکن بعد میں آنے والے میکسویل اور مارکس اسٹوئنس آسٹریلیا کو صرف جیت دلوانے کے لیے نہیں بلکہ جلد از جلد دلوانے کے لیے میدان میں اترے تھے۔ میکسویل تو اگرچہ 12 گیندوں پر 23 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے مگر اسٹوئنس واپس نہ جانے کے لیے میدان میں اترے تھے۔ انہوں نے صرف 17 گیندوں پر نصف سنچری اسکور کی اور ٹی20 کرکٹ میں یہ کسی بھی آسٹریلوی کھلاڑی کی جانب سے تیز ترین نصف سنچری ہے۔
اسٹوئنس نے ناقابلِ شکست رہتے ہوئے محض 18 گیندوں پر 59 رنز بنائے۔ اس اننگ میں 6 چھکے اور 4 چوکے شامل تھے۔
جب اسٹوئنس بیٹنگ کے لیے آئے تھے تب آسٹریلیا کو 46 گیندوں پر 69 رنز کی ضرورت تھی، مگر ان کی اس باکمال اننگ کے نتیجے میں آسٹریلیا نے یہ ہدف محض 26 گیندوں پر ہی حاصل کرلیا۔
ویسے اس میچ میں سری لنکا کی جیت کے لیے جو اہم ترین کھلاڑی ثابت ہوسکتے تھے، درحقیقت انہوں نے آسٹریلیا کی فتح کے لیے کام کیا۔ یہاں بات ہورہی ہے ونندو ہاسارنگا کی جنہوں نے محض 3 اوورز میں 52 رنز دے دیے۔ ساتویں اوور کے اختتام تک جب دیگر باؤلرز نے آسٹریلیا کو محض 38 رنز تک محدود رکھا تو ہاسارانگا نے 15 رنز دے دیے۔ پھر اپنے اگلے ہی اوور میں انہوں نے مزید 19 رنز دے دیے۔ بات یہاں نہیں رکتی، بلکہ دیگر باؤلرز ایک بار پھر آگے بڑھے اور آسٹریلیا کو روکنے کی کوشش کی اور اگلے 4 اوور میں 21 رنز تک آسٹریلوی بیٹسمینوں کو روکے رکھا، لیکن ہاسارانگا نے ایک بار پھر 19 رنز دے کر میچ تقریباً ختم ہی کردیا۔
دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے لیے یہ جیت تو اہمیت رکھتی ہی تھی، ساتھ رن ریٹ کی بہتری بھی ضروری تھی اور اسٹوئنس کی جارحانہ اننگ کے بعد یہ کسی حد تک بہتر ہو بھی گیا ہے۔ بات منفی ساڑھے چار (4.450-) سے شروع ہوئی تھی اور اب منفی ڈیڑھ (1.555-) تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن آسٹریلیا کی پریشانی ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ جمعے کو اس کا اہم ترین مقابلہ انگلینڈ سے ہے۔ اگر انگلینڈ کے خلاف آسٹریلیا کو ناکامی کا سامنا ہوا تو آگے بڑھنے کے لیے اس کے امکانات محدود بھی ہوسکتے ہیں۔