مسلسل تیسرے ماہ گاڑیوں کیلئے قرضوں کے حجم میں کمی
ستمبر کے آخر میں مسلسل تیسرے مہینے گاڑیوں کے واجب الادا قرضوں کی مقدار میں کمی واقع ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ گاڑیوں کے لیے واجب الادا فنانسنگ گزشتہ ماہ کے آخر میں 3 کھرب 9 ارب 40 کروڑ روپے رہی جو اگست کے مقابلے میں تقریباً 2 ارب روپے کم ہے۔
بینکوں کی جانب سے اپنے ملازمین کو دیے گئے آٹو قرضوں کو چھوڑ کر ماہانہ بنیاد پر کمی مزید بڑھ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگست کے دوران گاڑیوں کی فنانسنگ میں 2.2 فیصد کمی
مالی سال 23-2022 کے آغاز سے اب تک آٹو فنانسنگ 17 ارب روپے یا 4 فیصد سے زیادہ سکڑ چکی ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پاک-کویت انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے سربراہ ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ آٹو فنانسنگ میں مسلسل کمی کی تین بڑی وجوہات ہیں۔
ایک، جیسے ہی حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدات کو روک کر ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے اقدامات کیے، گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
نئی کاریں بہت زیادہ مہنگی ہو گئیں کیونکہ مقامی اسمبلنگ کا زیادہ تر انحصار درآمد شدہ کٹس اور پرزوں پر ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: جولائی کے دوران ماہانہ آٹو فنانسنگ میں کمی
دو، بڑھتی ہوئی افراط زر کے باعث اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوا، جو تمام صارفین کے قرضوں کے لیے بینچ مارک کے طور پر کام کرتا ہے، یوں سود کی شرح تقریباً دوگنی ہو گئی جس سے ممکنہ کار خریداروں کی بینک قرضوں کے ذریعے نئی خریداری کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
سمیع اللہ طارق نے کہا کہ کمی کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے خاص طور پر کار فنانسنگ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
مثال کے طور پر اسٹیٹ بینک نے گزشتہ سال قرضوں کے بوجھ کا تناسب 50 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کر دیا، اس کا مطلب ہے کہ ماہانہ آٹو لون کی ادائیگی کسی کی کل آمدنی کا 40 فیصد ہو سکتی ہے جبکہ اس سے پہلے کی حد 50 فیصد تھی۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک نے آٹو لون پر 30 لاکھ روپے کی بالائی حد لگائی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لوگ اعلیٰ درجے کی گاڑیاں خریدنے کے لیے کار فنانسنگ سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2022 میں آٹو سیکٹر میں فروخت بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے آٹو لون کی ادائیگی کی مدت کو بھی کم کر دیا ہے جبکہ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والی گاڑی کے لیے درکار کم از کم ڈاؤن پیمنٹ کو دگنا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مہنگائی کی بلند شرح کے ساتھ ان تمام اقدامات سے حالیہ مہینوں میں آٹو فنانسنگ کی طلب کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔‘
سمیع اللہ طارق نے کہا کہ بینک کراچی انٹربینک کے پیش کردہ نرخ (کبور) سے 4-5 فیصد زیادہ شرح پر گاڑیوں کا قرض دے رہے ہیں، جو کہ ہول سیل منی مارکیٹ میں بینکوں کے ذریعے استعمال ہونے والا بینچ مارک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں موجودہ میکرو اکنامک نمبروں کے پیش نظر آٹو فنانسنگ کم از کم آئندہ 6 ماہ تک کم رہے گی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آٹو فنانسنگ میں کمی کاروں کی فروخت میں مجموعی کمی کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہے، جو ستمبر میں ماہانہ بنیادوں پر 7 فیصد کم ہو کر تقریباً 13 ہزار یونٹس رہ گئی۔