سوات میں اسکول وین پر فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق، 2 طلبہ زخمی
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں اسکول وین پر نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق اور 2 طلبہ زخمی ہوگئے۔
سوزوکی گاڑی معمول کے مطابق صبح گھر سے بچوں کو لے کر اسکول جارہی تھی کہ سوات کے علاقے گلی باغ میں نامعلوم ملزمان کی جانب سے اس پر حملہ کیا گیا۔
حملے کے دوران فائرنگ کی نتیجے میں نجی اسکول کی سوزوکی گاڑی کا ڈرائیور محمد حسین موقع پر جاں بحق ہوگیا، واقعے میں دو طلبہ بھی زخمی ہوئے، تیسری جماعت کے طالب علم منون ولد سیف اللہ کو 3 گولیاں لگی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
ڈسٹرکٹ پولیس آفسر سوات (ڈی پی او) زاہد مروت نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جاں بحق شخص کی لاش اور زخمی طالب علم کو خوازہ خیلہ ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
ڈی پی او زاہد مروت نے مزید بتایا کہ پولیس کی بھاری نفری حملے کے مقام پر پہنچ چکی ہےم علاقے کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کردی گئی ہے تاہم تاحال کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
اپنے ایک بیان میں ڈی پی او سوات زاہد نواز مروت نے کہا کہ سوات میں آج کے افسوسناک واقعے کا ہدف اسکول کے بچے نہیں بلکہ وین کا ڈرائیور تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے اور جلد ہی مجرم سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔
ڈی پی او زاہد نواز مروت نے کہا کہ سوات میں اسکول وین پر فائرنگ کے واقعے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور حملوں آوروں کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، سوات کا امن کسی کو بھی صورت خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری جانب، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبے کے انسپکٹر جنرل کو تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سوگوار خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا اور زخمی طالب علم کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے کے بعد ریاست کو جاگ جانا چاہیے جس کی رٹ ایک بار پھر سوات میں کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں محسن داوڑ نے کہا کہ سوات کے لوگ دہشت گردی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، پشتونوں کو ایک بار پھر بھیڑیوں کے آگے پھینکا جا رہا ہے۔
واقعے کے خلاف احتجاج
اسکول وین پر فائرنگ کے خلاف سوات میں طلبا، اساتذہ اور عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
مشتعل مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں، حکومت ہمیں امن و امان اور تحفظ فراہم کرے۔
سوات میں نجی اسکولوں کے سیکڑوں طلبا اور اساتذہ حملے کے خلاف احتجاج کیا، یہ مظاہرہ پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا، احتجاج کے دوران اساتذہ اور طلبا کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹرز کا کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافے پر اظہارِ تشویش
صدر آل سوات پرائیویٹ اسکول اسکولز ایسوسی ایشن ثواب خان نے کہا کہ سوزوکی گاڑی معمول کے مطابق صبح گھر سے بچوں کو اسکول لے کر آرہی تھی کہ سوات کے علاقے گلی باغ میں یہ واقعہ پیش آیا۔
ثواب خان نے کہا کہ سوات کے تمام پرائیویٹ اسکول کل احتجاجاً بند رہیں گے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوئے 3 ماہ ہوگئے کو تیسرا مہینہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز چند نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف کیوں بے بس ہیں، 8 اکتوبر کو بائی پاس روڈ پر جعلی پولیس مقابلہ 2بے گناہ شہریوں کو مار کر دہشت گرد قرار دیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ حملہ اس مقام کے قریب پیش آیا جہاں سیکیورٹی فورسز تعینات تھیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے اور اگر ریاست اپنی اس ذمے داری کی ادائیگی میں ناکام ہے تو امن کے قیام کے لیے ہم خود لڑیں گے۔
مقررین میں شامل احمد شاہ نے مزید کہا کہ یہ 2007 کا سوات نہیں ہے جب کہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ منصوبہ بندی کے تحت اسلام اور شریعت کے نام پر کھیل کھیلا گیا۔
مظاہرے میں شریک اساتذہ نے کہا کہ سوات کے تمام اساتذہ اپنے طلبا کو سیکیورٹی فورسز کی ناانصافیوں اور ناکامیوں کے بارے میں باخبر اور آگاہ کرنے کے لیے مہم شروع کریں گے۔
مزید پڑھیں: سوات: پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی تلاش جاری
ان کا کہنا تھا کہ سوات کے تمام اساتذہ اور طلبا اب ہر نا انصافی کے خلاف سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے منعقد کیے گئے ہر احتجاج میں شریک ہوں گے۔
پی ایس ایم اے عہدیداران نے واقعے پر یوم سوگ منانے، ایک روز کی چھٹی کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ نشاط چوک پر ہونے والے احتجاج کی حمایت کریں گے۔
اس دوران مظاہرین نے چارباغ اور خوازہ خیلہ تحصیلوں میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے خلاف سڑکیں بلاک کردیں۔
واضح رہے کہ اس مقام پر 10 سال بعد دوبارہ اسکول وین پر حملہ ہوا ہے جب کہ اس سے قبل نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔
واضح رہے کہ سوات میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا، گزشتہ ہفتے حکومتی اور اپوزیش سینیٹرز نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے پر خطرے سے خبردار کیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم تنظیم کے حملوں سے متعلق حالیہ تھریٹ الرٹ کے بارے میں بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا۔
وزارت داخلہ نے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات منقطع ہونے کے بعد گروپ یا اس کے دھڑوں کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے پر الرٹ جاری کیا تھا۔
گزشتہ ماہ سوات کے ملحقہ پہاڑوں پر عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پورے سوات میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے تھےجنہوں نے زور دیا تھا کہ وہ کسی بھی گروہ یا دہشت گرد کو علاقے میں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔
شہریوں کی جانب سے 'ہم سوات میں امن چاہتے ہیں' اور دہشتگردی سے انکار' کے عنوان سے مظاہرے تحصیل خوازہ خیلہ میں مٹہ چوک اور تحصیل کبل کے کبل چوک کے نزدیک کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی تلاش جاری
8 اگست کو رپورٹ کیا گیا تھا کہ 4 پولیس اہلکار بشمول ڈی ایس پی عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں سوات اور دیر کے اضلاع میں پہاڑ کے قریب زخمی ہو گئے تھے، دوسری جانب سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے کہا تھا کہ صرف ایک پولیس اہلکار زخمی جبکہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے، غیرسرکاری ذرائع کے مطابق 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ ماہ ہی تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی لیاقت علی خان عسکریت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی اور 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ شمالی وزیرستان کے اطراف میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملوں، لاقانونیت اور مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے بھی کیے گئے جب کہ ان مظاہروں کے پیش نظر وفاقی حکومت نے امن و امان کی خراب صورت حال پر قابو پانے کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے لیے ایک 16 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔