پی ٹی آئی ارکان استعفیٰ کیس: سیاسی تنازعات پارلیمنٹ میں حل کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جن اراکین کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھیں، سیاسی تنازعات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت دے کہ وہ استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن کے درخواست گزاروں میں ڈاکٹر شیریں مزاری، شاندانہ گلزار، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، اعجاز شاہ، جمیل احمد، محمد اکرم شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’اسپیکر استعفوں سے متعلق آئینی ذمہ داری پوری کریں‘، پی ٹی آئی ارکان کی عدالت میں درخواست
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان، شاندانہ گلزار سمیت دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟ ابھی تک باقیوں کے استعفی ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے اعتماد کر کے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: استعفوں کی منظوری کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے، اسد عمر
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، آپ کو دیگر ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہئے، کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟
'جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھیں'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ آئے عدالت آئے یا نہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پٹیشنرز اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے، اسپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس شرط پر استعفے دیے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے،اسپیکر نے تمام استعفی منظور نہیں کیے اور صرف 11 استعفے منظور کیے، ہم کہتے ہیں کہ دیے گئے استعفی مشروط تھے، اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی، پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر وہ ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئلی بائیکاٹ کر رہے ہیں، آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا عدالت آنے والے دس ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف ؟ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ
بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے، ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کا احترام ہے، سیاسی معاملات کو وہاں حل کریں، جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھیں۔
'یہ عدالت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں ہو گی'
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور گیارہ ارکان کو نکال دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلے منٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں، عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں، پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں عدالت درخواست منظور کر لے گی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اسمبلی واپس نہیں جا سکتے انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں ہو گی، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور
علی ظفر نے کہا کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور نشست بھی باقی رہے، کیا عدالت یہ درخواست منظور کر کے حلقوں کے عوام کو نمائندگی کے بغیر چھوڑ دے، پارلیمنٹ کے ساتھ 70 سال سے بہت ہو چکا، اب ختم ہونا چاہیے۔
'سیاسی غیریقینی صورتحال ملکی مفاد میں نہیں'
علی ظفر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پھر یہ عدالت یہ درخواست بھی منظور نہیں کر سکتی، درخواست گزار اسپیکر کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ ہم اسپیکر کے پاس تو نہیں جا سکتے، یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ کی سیاسی ڈائیلاگ کے لیے سہولت کاری تو نہیں کرے گی، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مانتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کہے کہ عدالت کو مانتا ہوں اور عدالت کو جو مرضے آئے کہتا رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں، یہ عدالت درخواست منظور کیوں کرے؟ جب تک پارلیمنٹ کے احترام کا اظہار نہیں کریں گے درخواست منظور نہیں ہو سکتی، پارلیمنٹ مانتے بھی نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں، یہ عدالت آپ کو کل تک کا وقت دے دیتی ہے، کل پارلیمنٹ واپس چلے جائیں یہ عدالت آپ کی درخواست منظور کر لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرلیے، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے، سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں، سیاسی تنازعات اس عدالت کیلئے نہیں، یہ عدالت مداخلت نہیں کریگی، یہ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی، سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں واپس جا کر سیاسی عدم استحکام کو ختم کرے، سیاسی عدم استحکام سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
پارٹی پالیسی ہے ہم ایم این ایز برقرار ہیں، وکیل پی ٹی آئی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر قومی اسمبلی تو پی ٹی آئی کو موقع دے رہے ہیں کہ آئیں اور عوام کی خدمت کریں جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے ایک گھنٹہ دیں میں مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرتا ہوں جس پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
پی ٹی آئی کے دس ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں پر کچھ قانونی مسائل پیش کرنا چاہتا ہوں، سپیکر قومی اسمبلی نے ہمارے استعفے منظور کرتے ہوئے قانون کو مدنظر نہیں رکھا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سپیکر نے نہیں باہر کے لوگوں نے دی، ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں ایاز صادق، اعظم تارڑ اور دیگر استعفے منظوری کے فیصلے کررہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کہ اسپیکر نے کسی کے کہنے پر استعفوں کا فیصلہ کیا، پارلیمنٹ تحلیل کرنے یا ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کیا ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟ ماضی میں نہ جائیں، سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی عام پاکستانیوں کے ساتھ ہورہی ہے، یہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کرتی ہے اور کرتی رہے گی، ارکان پارلیمنٹ یہ احترام نہیں کر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کے اجتماعی استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ واپس جانے یا نا جانے کا فیصلہ سیاسی ہو گا، عدالت اس سے دور رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو اس متعلق کچھ نہیں کہہ رہے، پٹیشنرز کہہ رہے کہ سیاسی جماعت کی پالیسی کا احترام کرتے ہیں، پھر یہ واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بعد میں پارٹی طے کرے کہ اسمبلیوں میں واپس جانا ہے، ہو سکتا ہے طے کریں کہ اسمبلی میں جا کر کسی بل کی مخالفت کرنی ہے، اس صورت میں ہمارے گیارہ ارکان واپس نہیں جا سکیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسی سیاسی جماعت کی درخواست پر اس عدالت نے ایک فیصلہ دیا تھا، علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے استعفے کی منظوری کا طریقہ کار طے کر دیا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان ارکان نے تو جینوئن استعفے دیے تھے یا اپنے لیڈر کی خوشنودی کے لیے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے استعفے دیے کہ تمام 124 استعفے منظور کیے جائیں، اب 11 کو منتخب کر کے استعفے منظور کیے گئے، استعفے درست طور پر منظور نہیں ہوئے اس لئے پارٹی اب استعفے نہیں دینا چاہتی، پارٹی کی پالیسی ہے کہ ہم اب ایم این ایز برقرار ہیں۔
اسپیکر کے پی ٹی آئی کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے کا موقع دینے کو سراہتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پارٹی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتی، کیا عدالت درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرانے کیلئے درخواست منظور کرے؟ اسمبلی کا ممبر ہو کر اسمبلی سے باہر رہنا اس مینڈیٹ کی توہین ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزار بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ وہ اپنے حلقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں گے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپکی پارٹی کی یہ پالیسی نہیں ہے، تضاد آ جاتا ہے، آپ اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر واپسی چاہتے ہیں، آپ پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ پٹیشنر واقعی پارلیمنٹ میں واپسی چاہتے ہیں، پھر وہ کہہ دیں کہ دباؤ میں استعفی دیا اور غلطی مان کر اب واپسی چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے نام سے کسی رکن کو اپوزیشن لیڈر نامزد نہ کیا جائے، عمران خان
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ پہلی رکاوٹ ہی دور نہیں کر پا رہے، آپ یہ ثابت کریں کہ غلطی ہو گئی تھی، واپس پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں، یہ بتا دیں کہ آپ کو کسی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا، پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا پارلیمنٹ اور عوام کے مفاد میں ہے، عوامی بہترین مفاد میں یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ ہو، عوامی مفاد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے کا موقع دینے پر سراہتی ہے، اسپیکر نے پی ٹی آئی کو سیاسی افراتفری ختم کر کے واپس پارلیمنٹ جانے کا موقع دیا، کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں، اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں ہے، آج بھی کوئی سول سپرمیسی کی بات نہیں کر رہا ہے۔
'پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی نہیں مان رہی'
علی ظفر نے سوال کیا کہ عدالت درخواست گزاروں سے پارلیمنٹ میں حلقے کی نمائندگی کی یقین دہانی چاہتی ہے؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صرف یقین دہانی نہیں، اپنے عمل سے ثابت کریں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، شکور شاد کا کیس مختلف تھا، وہ اسمبلی کے اجلاس اٹینڈ کرتا رہا، پارٹی نے اس کے خلاف ایکشن لیا ان ممبران کے خلاف نہیں لے رہے، آپ کے بہت سے تضادات ہیں، اس عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی اسپیکر کو ڈائریکشن نہیں دی، پھر دس بیان حلفی دیدیں کہ آپ اپنی پارٹی پالیسی کو نہیں مانتے،یہ بیان حلفی دیں تو عدالت آپکی درخواست منظور کر لے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پارٹی کی پالیسی کو تو تسلیم کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو پارلیمنٹ کی تحلیل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، یہ پارٹی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی نہیں مان رہی، یہ پارٹی کہتی ہے کہ ہماری طرف سے یہ اسمبلی تحلیل ہو چکی، ہم اس کو نہیں مانتے، جو وہ براہ راست نہیں کر سکتے وہ اس عدالت کے ذریعے کرانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ اگر الیکشن چاہتے ہیں تو پھر تو دو ہی طریقے ہیں، پہلا یہ کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، پھر عدالتیں آپکو ریسکیو نہیں کرینگی، دوسرا طریقہ آئین کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں مسائل حل کرنا ہے، اس دورا ن بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیان حلفی پر مشاورت کیلئے ہمیں وقت دیدیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت درخواست کو لمبے عرصے کے لیے ملتوی کر دیتی ہے، جب پارٹی پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کر لے تو متفرق درخواست دے دیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تب کوئی فائدہ نہیں، تب تک تو الیکشن ہو جائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ درخواست صرف اس الیکشن کو روکنے کیلئے دائر کی گئی ہے؟ یہ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرنے والی کوئی درخواست منظور نہیں کریگی،123 ممبران پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم استعفے دے رہے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مان رہے لیکن کہتے ہیں کہ انہیں بحال کر دیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ موقف کا تضاد ہے، سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، یہ عدالت آپ کی درخواست پر نوٹس بھی جاری نہیں کرے گی، اگر چاہتے ہیں تو آج ہی فیصلہ کر دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کہیں میری مرضی کے مطابق چیزیں ہوئیں تو مانوں گا ورنہ نہیں، کوئی جمہوری معاشرہ بتا دیں جہاں ایسا ہوتا ہو، ہر جمہوری معاشرے کے اصول ہوتے ہیں۔
ان ریمارکس کے ساتھ ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔
مزید پڑھیں: نیب کے تمام عہدیداروں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، ایاز صادق کا مطالبہ
سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری (جو اس وقت قائم مقام اسپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے) نے فوری طور پر استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
نئی حکومت کی تشکیل کے بعد جون میں نئے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا تھا۔
بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے رواں سال جولائی میں پاکستان تحریک انصاف کے 11 ممبران کے استعفی منظور کیے جن میں شیریں مزاری، اعجاز احمد شاہ، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، جمیل احمد خان، محمد اکرم چیمہ، عبدالشکور شاد، شاندانہ گلزار خان شامل تھے اور الیکشن کمیشن نے ان ممبران کے استعفوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 11 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کردیا
چونکہ شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان پنجاب اور خیبرپختونخوا سے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں اس لیے الیکشن کمیشن نے بقیہ 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم یہ ضمنی انتخابات سیلاب اور مون سون کی بارشوں کے باعث ملتوی کردیے گئے تھے۔
ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنر اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کے 100 سے زائد استعفوں میں سے صرف 11 استعفوں کی منظوری کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔