ورلڈ کپ کے لیے قومی ٹیم کا اعلان: اگر سب اچھا نہیں تو سب بُرا بھی نہیں!
آنے والے دو ماہ شائقین کرکٹ کے لیے کسی بھرپور سیزن سے کم نہیں کیونکہ انگلینڈ کا دورہ پاکستان شروع ہوچکا ہے اور دونوں ٹیموں کے درمیان 7 ٹی20 مقابلے کھیلے جائیں گے، جس کے بعد نیوزی لینڈ کے میدانوں میں پاکستان، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش پر مشتمل سہ ملکی سیریز دیکھنے کو ملے گی اور پھر سال کا سب سے بڑا ایونٹ یعنی ٹی20 ورلڈ کپ کا میلہ سجے گا۔
اس پورے سیزن کے لیے آج قومی ٹیم کا علان ہونا تھا اور ہر کوئی منتظر تھا کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم صاحب کو کن کھلاڑیوں پر مشتمل فہرست ملتی ہے جس کا وہ اعلان کریں گے، کیونکہ ناقدین تو یہی کہتے ہیں کہ چیف سلیکٹر کو ٹیم کے انتخاب کے لیے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کے نام کا اعلان کرنے تک ہی محدود کیا گیا ہے۔
بہرحال، ناقدین ٹھیک ہیں یا نہیں، اس بارے میں نہ آج بات کرنے کا موقع ہے نا دستور، بات ہوگی تو صرف اس موضوع پر کہ ٹیم کا انتخاب کتنا درست ہے اور کتنا غلط ہے؟
مجھے یاد ہے کہ ایشیا کپ کے فائنل میں شکست کے بعد ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق پریس کانفرنس کے لیے آئے تو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ انہیں اپنے کھلاڑیوں پر مکمل بھروسہ اور اعتماد ہے، اور اس بیان کی پوری جھلک آج اعلان کردہ ٹیم میں نظر آئی، یعنی ایشیا کپ میں جس ٹیم کا انتخاب ہوا تھا، ورلڈ کپ کے لیے بھی وہی ٹیم منتخب کی گئی، ہاں چونکہ فخر زمان انجری کے سبب ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے لہٰذا ان کی جگہ شان مسعود کو شامل کیا گیا ہے۔
اس ٹیم کے انتخاب کے بعد یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ اب ورلڈ کپ میں بھی بابر اعظم اور محمد رضوان ہی اوپننگ کریں گے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ورلڈ کپ میں بھی ہم تیز آغاز کی امید نہ لگائیں، کیونکہ ہمارے اوپنرز کو ناجانے کس نے یہ بتادیا ہے کہ ابتدا میں رنز بنیں نہ بنیں، بس وکٹیں مت گرنے دینا۔
اگر ہم بہت اچھے آغاز کی امید لگالیں تو بابر اور محمد رضوان کی جوڑی کے اب تک کے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم 6 اوورز میں 40 یا 45 رنز ہی بناسکیں گے۔ اگر 2021ء کے ٹی20 ورلڈ کپ کا ذکر کریں تو پاکستان نے پاور پلے یعنی ابتدائی 6 اوورز میں اوسطاً 35 رنز بنائے تھے۔ آسٹریلیا کی تیز وکٹوں میں کیا صورتحال ہوگی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔
اچھا مسئلہ یہ نہیں کہ آپ ابتدا میں آہستہ کھیل رہے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آپ وکٹ پرسیٹ ہونے کے لیے وقت لیتے ہیں مگر جب کُھل کر کھیلنے کا وقت آتا ہے تو آپ آوٹ ہوجاتے ہیں۔
محمد رضوان نے سری لنکا کے خلاف فائنل میں کیا یہی نہیں کیا؟ جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو 8 رنز فی اوور درکار تھے، مگر جب وہ 15ویں اوور میں آوٹ ہوئے تو اس وقت تقریباً 17 رنز فی اوور درکار تھے، اب ایسی اننگ کو بھلا کون اچھا کہہ سکتا ہے؟
دوسرا معاملہ مڈل آرڈر کا ہے۔ ایشیا کپ کے فائنل میں شکست کے بعد بہت تنقید ہوئی اور کہا گیا کہ اس حوالے سے کام کیا جائے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ کہ دوسرے کھلاڑی لائیں بھی تو کہاں سے؟ کیا پورے ڈومیسٹک سرکٹ میں کوئی ایسا نام ہے جو اپنی غیر معمولی کارکردگی کی بنیاد پر فوری طور پر ٹیم کا حصہ بن سکے؟ یہ ڈومیسٹک کرکٹ کے لیے بہت بڑا سوال ہے۔
لیکن سب بُرا نہیں، بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ جیسے شاہین شاہ آفریدی کی واپسی ہے۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر فٹ نہیں مگر ان کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ وہ ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم کا حصہ بن جائیں گے۔ اگر وہ فٹ قرار دے دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ حارث رؤف اور نسیم شاہ کا ساتھ مخالف ٹیموں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اسی طرح شاداب خان کا ٹیم میں شامل ہونا بھی خوشگوار ہے۔ فائنل میں ہونے والی انجری کے سبب یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ شاید وہ ورلڈ کپ کے لیے دستیاب نہیں ہوں، مگر آج ایسی تمام خبریں دم توڑ گئیں۔ شاداب خان جس فارم میں ہیں اس میں ان کا ٹیم میں ہونا ضروری تھا۔
ان تمام باتوں کے بعد یہ کہنا لازمی سمجھتا ہوں کہ تنقید کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، مگر ہمیں ٹیم انتظامیہ کو اس حوالے سے کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے پچھلے ورلڈ کپ کے بعد جن کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا، اس بھروسے کو برقرار بھی رکھا۔
اب یہاں کوئی کچھ بھی کہے کہ دوستیاں نبھائی جارہی ہیں یا میرٹ پر فیصلے نہیں ہورہے، مگر یہ بات طے ہے کہ ٹیم میں تبدیلی نہ کرنا مشکل اور بڑا فیصلہ ہے، کیونکہ اگر نتیجہ توقعات کے خلاف آتا ہے تو اس کا نقصان بھی کپتان سمیت پوری ٹیم اور انتظامیہ کو اٹھانا پڑے گا۔