موہن جو دڑو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے نہیں نکالا جا رہا، صوبائی وزیر
سندھ کے صوبائی وزیر ثفافت سردار شاہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کا تاریخی ورثہ موہن جو دڑو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے نہیں نکالا جا رہا۔
ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ثقافت سندھ سردار شاہ نے کہا کہ موہن جودڑو محفوظ ہے کیونکہ موجودہ موہن جو دڑو صرف 10 فیصد ہے جبکہ 90 فیصد تو زیر زمین ہے اور بھی تک نکالا ہی نہیں گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’موہن جو دڑو‘ جیسے شہر بناتے تو یورپی لوگ یہاں آتے، یاسر حسین
سردار شاہ نے کہا کہ موہن جو دڑو کی 90 فیصد کھنڈرات زمین، ایئر پورٹ اور میوزیم کے نیچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موہن جو دڑو کے 5 ہزار سال قدیمی نکاسی آب کے نظام نے آج بھی کام کیا، جہاں باقی سارے شہر ڈوب رہے تھے وہاں موہن جو دڑو کے گریٹ باتھ میں جمع پانی فوری نکل گیا۔
صوبائی وزیر ثقافت نے کہا کہ ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا اور جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے موہن جو دڑو کے تحفظ اور بحالی کے کام پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر اس حوالے سے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس تاریخی مقام کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: `موہن جو دڑو کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے، حکام کا انتباہ`
موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ کے کھنڈرات میں 16 سے 26 اگست تک 779.5 ملی میٹر ریکارڈ بارش ہوئی تھی۔
مسلسل بارش کے نتیجے میں اس جگہ کو کافی نقصان پہنچا اور استوپا گنبد کی حفاظتی دیوار سمیت کئی دیواریں جزوی طور پر گر گئی تھیں۔
موہن جو دڑو کے نگران نے 29 اگست کو ڈائریکٹر ثقافت، نوادرات اور آثار قدیمہ کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’ہم نے اپنے وسائل سے اس مقام کی حفاظت کے لیے کوششیں کی ہیں‘۔
مزید پڑھیں: سندھ کلچرل فیسٹول سے موہن جو دڑو کو نقصان پہنچے گا، ماروی میمن
انہوں نے بتایا تھا کہ عالمی ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے محکمہ آبپاشی، محکمہ شاہرات اور محکمہ جنگلات سمیت دیگر محکموں کا کردار کافی ضروری تھا کیونکہ زمینداروں اور کسانوں نے موہن جو دڑو کے نالے میں پانی چھوڑنے کے لیے نہ صرف پائپ ڈالے ہوئے تھے بلکہ نہروں اور سڑکوں کو بھی کاٹ دیا تھا۔
مذکورہ محکموں کی لاپرواہی کی وجہ سے قریبی زرعی زمینوں سے آنے والے بارش کے پانی نے موہن جو دڑو کے نالے کو بھر دیا تھا۔