غیر متوازن معیشت کے سبب کوئی دوست ملک پاکستان کی مدد کو تیار نہیں، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے انکشاف کیا ہے کہ 'کوئی بھی دوست ملک پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اس کی معیشت غیر متوازن ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات اور برآمدات میں بڑا فرق ہے'۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے ان مینوفیکچرنگ صنعتوں پر ٹیکس عائد کیا ہے جن کا برآمدات میں کوئی حصہ نہیں تھا، اس کے علاوہ تاجروں اور بلڈرز سمیت دیگر ایسے کئی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل ایک نجی صحت کی سہولت کے دورے کے دوران کاروباری برادری، معروف کمپنیوں کے سی ای اوز، مالیاتی اور قانونی ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: قوم کو پرانے طور طریقے بدل کر اپنے وسائل میں رہنا ہوگا، مفتاح اسمٰعیل
ان کا کہنا تھا کہ ایک ملک کیا کر سکتا ہے جب مختلف اشیاء کی درآمد پر پابندی کے اقدامات کے باوجود اس کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے جو کہ اب 80 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، دوسری طرف ہماری برآمدات سے صرف 30 ارب ڈالر مل رہے ہیں۔
وزیر نے اپنے سامعین سے سوال کیا کہ اب آپ ہمیں بتائیں کہ اس طرح کے رویے سے یہ ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارا کوئی دوست ملک ہماری مالی مدد کے لیے رقم دینے کو تیار نہیں ہے۔
سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر کا ایکسپورٹ میں 20 ارب ڈالر کا حصہ تھا۔
مزید پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل
انہوں نے نشاندہی کی کہ تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان کی وجہ سے بہت سی صنعتیں برآمدات کے لیے نہیں جا سکتیں اور اپنے سامان کی تیاری کے لیے خام مال وغیرہ درآمد کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لہذا ہم نے برآمدات میں صفر شراکت رکھنے والے مینوفیکچررز پر 5 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم یہ صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ برآمدات شروع کریں اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان سے کوئی بھی چیز برآمد کی جا سکتی ہے تو پھر ہمارا مینوفیکچرنگ سیکٹر اس طرف کیوں نہیں جا رہا؟
فکسڈ ٹیکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ دکانداروں سے 41 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ تھا، بعد میں، کچھ مسائل [دکانداروں کی قسم، کاروباری حجم وغیرہ] کی وجہ سے اس میں تبدیلی کی گئی اور اس میں تین قسم کے فکسڈ ٹیکسز، 3 ہزار، 5 ہزار اور 10 ہزار روپے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے ذریعے ہم ابتدائی طور پر اس شعبے سے 27 ارب روپے اکٹھے کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم نہیں، مؤخر کیے گئے ہیں، مفتاح اسمٰعیل
انہوں نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ آئندہ کیلنڈر سال کے لیے سپر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا تاہم انہوں نے شرکا سے اپیل کی کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک فیصد عطیہ کرکے سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی بڑی تباہی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل جذبات سے مغلوب ہو گئے اور تاجروں پر زور دیا کہ وہ سیلاب زدگان اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی میں حکومت کی مدد کریں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے دفاتر میں بات کرتے ہوئے ایف ایم اسمٰعیل نے کہا کہ مختلف صوبوں کے درمیان گیس کی قیمتوں میں تفاوت پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ کابینہ کی منظوری سے جلد حل ہو جائے گا۔
لیکویڈیٹی کی کمی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں درآمدی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس حاصل کرنے میں درپیش مسائل پر انہوں نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ ہفتے اپٹما آفس کا دورہ کریں تاکہ فنانس سے متعلق تمام مسائل کو حل کیا جا سکے۔