ڈیم اور سیاست کا کالاباغ
لیجیے، کالا باغ ڈیم ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے پانی اور بجلی شیر علی نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نواز لیگ کے ایجنڈا میں شامل ہے اور ان کی پارٹی یہ ڈیم ضرور بنائے گی۔
اس سے قبل گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دیا اور کہا کہ اب بال عمران خان کی کورٹ میں ہے۔
نواز لیگ کے دونوں رہنماؤں نے اس متنازع آبی منصوبے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صف بندی میں اس منصوبہ کو شروع کرنے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔
بجایے اس کے کہ نون لیگ کی حکومت اس وقت مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرے، دہشت گردی اورا من امان کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر اتفاقِ رایے پیدا کرے، اس نے ایک ایسے متنازع مسئلہ کا انتخاب کرلیا ہے جو صوبوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھا دے گا۔
جونیجو دور سے لے کر اب تک کیی بار یہ کوشش کی جا چکی لیکن اس پر اتفاقٰ رایے نہیں ہو پایا۔ خود نواز شریف نے بھی اپنے گزشتہ دور میں یہ ڈیم بنانے کا اعلان کیا مگر سندھ اور پنجاب کے بھرپور احتجاج کے بعد معاملہ ٹھپ ہوگیا جس کے چند ہی ماہ بعد ان کی حکومت کی بھی چھٹی ہویی۔ اس کے بعد جنرل مشرف نے بھی ایک بھرپور مشق کی لیکن بیل مونڈھے نہ چڑھی۔
عوامی نیشنل پارٹی شروع سے ہی کالا باغ ڈیم کی مخالف رہی ہے ۔ ولی خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہ ڈیم بنایا جائے گا تو وہ بم باندھ کر اس میں کود جائیں گے۔ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت بھی کالاباغ ڈیم کی مخالف ہے، وزیراعلیٰ پرویز خٹک جس کی برملا مخالفت کر چکے ہیں۔
سندھ کہتا ہے کہ اس پر بات ہی نہیں ہوسکتی اور بلوچستان کے اپنے تحفظات ہیں۔ تین صوبوں کی اسمبلیاں مختلف ادوار میں تین بار اس کے خلاف قراردادیں بھی منظور کر چکی ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں تو چاہے کوئی بھی پارٹی حکومت میں ہو، اس ڈیم بنانے کی حامی نہیں ہو سکتی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں قومی اسمبلی بھی اس ڈیم کے خلاف قرارداد منطور کر چکی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں اس ڈیم کی تعمیر کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا بھی سہارا بھی لیا جا چکا ہے تاکہ فنی اور سیاسی معاملات کو عدلیہ کی ایکٹوازم کے ذریعے نمٹنے کی کوشش کی جایے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم کا بننا ممکن ہی نہیں تو موجودہ حکومت کیوں ایک مردے گھوڑے کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت بعض مسائل اور امور سے فرار اختیار کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم کا سہارا لے رہی ہو؟
آج کی صورتحال میں یہ اب ایک دلچسپ منظر ہے۔ ایک طرف تو نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ایک گیند دے دی ہے جس سے وہ سندھ میں کھیل کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ نواز لیگ جو سندھ میں عام انتخابات میں اپنی ناکامی اور صدارتی انتخاب میں تنازعے کی وجہ سے پہلے ہی کمزور پچ پر چلی گئی تھی، مزید کمزور ہو جایے گی۔ پھر ایم کیو ایم سے قربت کے بعد اب سندھ میں یہ بحث بھی چھڑ گیی ہے کہ آیا سندھ نواز شریف کے ایجنڈا میں شامل بھی ہے یا نہیں؟
جہاں سندھ سے ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی وغیرہ کی پارٹی میں شمولیت پرپنجاب میں خوشیاں منائی جارہی تھیں، وہاں سندھ میں یہ لوگ پارٹی سے بدظن ہو کر نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ کوئی نئی پارٹی بنانے کا سوچ رہا ہے تو کوئی سیاسی گوشہ نشینی کی طرف جارہا ہے۔
اب آنے والے دن بتایین گے کہ سندھ میں نواز لیگ کے اپنے اتحادی قوم پرستوں اور فنکشنل لیگ کے ساتھ کیا روابط اور تعلقات ہوں گے؟ یہ دونوں حلقے کالاباغ ڈیم کے مخالف رہے ہیں۔ پیر پاگارا نے حیدرآباد میں منعقدہ جلسے میں جہاں پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی مخالفت کی تھی وہاں کالاباغ ڈیم کے خلاف بھی کھل کر بات کی تھی۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی بات اٹھاکر نواز لیگ تحریک انصاف کو ایک مشکل مقام کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے جسے وہ پنجاب میں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اگر عمران خان اس متنازع ڈیم کی حمایت کرتے ہیں تو خیبر پختونخواہ میں ان کی مقبولیت کو زک پہنچے گی اور اور اگر نہیں کرتے تو پنجاب میں نقصان اٹھاییں گے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ نواز شریف ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں اور کیا وہ دوسرے صوبوں سے پنجاب کے فاصلے کم کریں گے یا مزید بڑھانے کا سبب بنیں گے؟
تبصرے (5) بند ہیں