حکومت سے گیس کے شعبے میں اصلاحات، ٹرانسمیشن فرم کے قیام کا مطالبہ
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایک اسٹریٹجک اثاثے کے طور پر ایک نیشنل گیس ٹرانسمیشن کمپنی (این جی ٹی سی) فوری تشکیل دے تاکہ گیس سیکٹر میں اصلاحات کا آغاز کیا جا سکے اور گیس مارکیٹ کو مسابقت کے لیے کھولا جا سکے اور ملک کو درپیش بڑے پیمانے پر طلب اور رسد کے فرق کو پورا کرنے میں سہولت فراہم ہو سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوگرا کا تخمینہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی گیس کی طلب اس وقت 6 ارب کیوبک فٹ یومیہ سے زیادہ ہے، جو کہ درآمدی ایل این جی سمیت کل سپلائی کے 3 ارب کیوبک فٹ یومیہ کی موجودگی میں 3 ارب کیوبک فٹ یومیہ سے زیادہ کی بڑھتی ہوئی کمی کو واضح کرتی ہے۔
ایک پریزنٹیشن میں اوگرا کے محمد عارف نے گیس مارکیٹ کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی جس میں گیس یوٹیلٹیز کی جانب سے مارکیٹ شیئر کھونے کے خوف سے اصلاحات کی مزاحمت، گھریلو گیس کے محدود ذخائر اور پیداوار، گیس ذخیرہ کرنے کی سہولیات کی عدم دستیابی اور ایل این جی ہینڈلنگ کی محدود سہولیات شامل ہیں۔
دیگر مسائل میں ملک میں سرمایہ کاری کو درپیش خطرات، مجموعی اقتصادی حالات اور نجی شعبے کی عدم شراکت بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صوبوں کی مخالفت کے باوجود حکومت گیس کے شعبے میں اصلاحات کیلئے تیار
اوگرا کے رکن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ انفرا اسٹرکچر کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کا استعمال گیس سیکٹر کی اصلاحات کا ایک اہم عنصر ہے اور گیس پائپ لائن نیٹ ورک کے لیے تھرڈ پارٹی ایکسس (ٹی پی اے) نظام پہلے سے موجود ہے لیکن سوئی کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو کھودینے کا خوف ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
گیس کی محدود دستیابی کے پیش نظر حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گیس کی فراہمی کی ترجیحات پر نظرثانی کرے اور ایک سے زیادہ فراہم کنندگان کو ایک سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے اوپری سطح پر گیس کی تقسیم کے لیے پالیسی بنائے۔
اوگرا کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ایل این جی ٹرمینل اور اسٹوریج کی سہولیات کے لیے اوگرا ٹی پی اے کو حتمی شکل دینے کے عمل میں ہے جس کے لیے حکومت کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے تازہ سرمایہ کاری کے لیے خصوصی مالی مراعات متعارف کرانا ہوں گی۔
اوگرا نے گھریلو گیس کی کم ہوتی پیداوار اور ناقابل برداشت بین الاقوامی قیمتوں کے سبب گیس کی تیزی سے کمی کے باوجود نئے قصبوں اور دیہاتوں میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کی توسیع کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی گائیڈ لائنز بھی طلب کی ہیں۔
مزید پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی
عالمی بینک کی حمایت یافتہ گیس سیکٹر کی اصلاحات میں 2 گیس یوٹیلیٹیز 'سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (این این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل)' کو ختم کرکے کم از کم 5 پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تبدیل کرنے کا تصور مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں دیا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات اور صوبوں کے ساتھ مشاورت کی کمی کی وجہ سے یہ 2017 سے تعطل کا شکار ہے۔
ان اصلاحات کے تحت ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کو اس انداز میں ختم کیا جائے گا جس سے ان کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے کاروبار کو علیحدہ کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد کم از کم 5 نئے لائسنس جاری ہوں گے جن میں ایک گیس ترسیل کمپنی اور 4 صوبائی تقسیم کار کمپنیاں شامل ہوں گی، جن میں سے ہر ایک کی صوبائی حدود ان کی فروخت کے علاقوں کے مطابق ہوں گی تاکہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کی منظوری سے گھریلو صارفین کو صرف گھریلو گیس فراہم کی جا سکے۔
ٹرانسمیشن نیٹ ورک ایل این جی کی بڑھتی ہوئی درآمدات سے پیدا ہونے والی تقسیم کار کمپنیوں اور کسی بھی دوسرے نجی آپریٹرز کو آزادانہ رسائی فراہم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: گیس سیکٹر میں اصلاحاتی عمل صوبائی مخالفت کی نذر
یہ مجوزہ نظام گیس کا انتظام نہیں کرے گا بلکہ صرف گیس فراہم کرے گااور صوبائی تقسیم کار کمپنیوں کے ذریعہ فروخت کی جانے والی مقامی گیس اور نجی آپریٹرز کے ذریعہ اپنے مخصوص صارفین کو درآمد کردہ ایل این جی کی فراہمی کے لیے ریگولیٹر کے ذریعہ اسے مقرر کردہ ٹرانسپورٹیشن چارجز ادا کیے جائیں گے۔
بڑے صارفین اپنے پسندیدہ فراہم کنندہ کے انتخاب کے لیے آزاد ہوں گے اور یہ طریقہ کار ایل این جی درآمد کنندگان کے درمیان لاگت کی تقسیم میں مسابقت اور شفافیت کو فروغ دے گا۔
عالمی بینک کی مدد سے مشاورین نے یہ نیا ماڈل وضع کیا تاکہ صارفین کو گھریلو گیس کے وسائل کی فراہمی سے متعلق آئینی دفعات کے مطابق سپلائی کی حفاظت اور شعبے کی بہتر عملداری اور پائیداری کے ساتھ گیس فراہم کی جائے۔