• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

'الیکشن کمیشن نے حقائق پر مبنی تفتیش کی، اب عدلیہ اور حکومت کا امتحان ہے'

شائع August 2, 2022
رانا ثنااللہ نے کہا کہ کیا یہ کوئی سیاستدان کا کام ہے کے جو یہ کہے کہ میں ملک دشمنوں سے بات کر سکتا ہوں — فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے کہا کہ کیا یہ کوئی سیاستدان کا کام ہے کے جو یہ کہے کہ میں ملک دشمنوں سے بات کر سکتا ہوں — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حقائق پر مبنی تفتیش کی، اب حکومت اور عدلیہ کا امتحان ہے، ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ عمران خان مستند جھوٹا انسان ہے۔

اسلام آباد میں وزیر قانونی اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ زبان دراز خان ہر کسی کے خلاف ایسی گفتگو کرتا ہے جو تمام اخلاقی اقدار سے گری ہوئی ہوتی ہے اور اس (عمران خان) نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف بلاجواز اتنی گھٹیا گفتگو اور زبان درازی کی مگر اس نے صبر اور دانائی سے نہ صرف اس کی گھٹیا گفتگو کا جواب نہیں دیا بلکہ انہوں نے بہت سمجھ اور تدبر کے ساتھ تمام صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے قانون و آئین کے مطابق فیصلہ دیا جس پر پوری قوم ان کو اس فیصلے پر سراہتی ہے۔

مزید پڑھیں: غیرملکی فنڈنگ کامعاملہ الیکشن کمیشن بھجوانےپرپی ٹی آئی سےموقف طلب

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے تین چار باتیں ثابت ہوئی ہیں، یہ ثابت ہوا ہے کہ فتنہ فساد خان جھوٹا آدمی ہے اور ہر معاملے میں اس کا جھوٹ ثابت ہوا ہے اور اب اس فیصلے کے بعد یہ مستند جھوٹا انسان ہے، اس فیصلے کی رو سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس نے غلط بیانی کی ہے، چیزوں کو چھپانے والا چور ہے اور اس کی ان تمام چوریوں کو فیصلے میں ثابت کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس (عمران خان) نے خیرات اور مریضوں کے نام پر پیسہ اکٹھا کیا اور وہ پیسہ سیاست پر خرچ کیا اور یہ بات بھی اس فیصلے سے پوری طرح سے عیاں ہے کہ یہ انسان بددیانت ہے۔

رانا ثنااللہ نے فواد چوہدری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جہلم کا ڈبو کہہ رہا تھا کہ فیصلے میں ممنوعہ فنڈنگ کا کوئی ذکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2002 کے قوانین میں سیکشن 2 سی ہے اور موجودہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سیکشن 200 سب سیکشن 4 ہے، وہاں پر دراصل لفظ ’غیر ملکی معاونت پولیٹیکل پارٹی‘ ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی جماعت کسی بیرونی حکومت یا ممالک یا غیر ملکی افراد سے کسی قسم کی مالی مدد حاصل کرتی تو وہ جماعت ’غیر ملکی معاون والی سیاسی جماعت‘ ڈکلیئر ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے 30 دن کی ڈیڈ لائن کو چیلنج کردیا

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 34 غیر ملکی شہریوں کے نام ہیں جن میں ہمارے دشمن ممالک کے لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جن سے فنڈ لیا گیا جو باقاعدہ ریکارڈ پر ہے اور اسی طرح 351 غیر ملکی کمپنیاں ہیں جن سے بھی فنڈ لیا گیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ انہوں نے غیر ملکی باشندوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ لی اور اسی طرح غیر ملکی معاونت والی جماعت ثابت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ 2002 کے قانون میں سیکشن 15 اور 2017 کے قانون میں سیکشن 212 اور 213 شامل ہیں جس میں لکھا ہے کہ ’جہاں وفاقی حکومت اس بات پر مطمئن ہو کہ سیاسی جماعت غیر ملکی امداد یافتہ سیاسی جماعت ہے‘ اور اور پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کہا مگر اس کو کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے حقائق پر مبنی تفتیش کی اس پر مختلف کمیٹیاں بنا کر ثابت کیا اور ان کمیٹیوں کی رپورٹ بھی موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹھ سال کے لمبے عرصے میں انہوں نے ہر حربے استعمال کیے کہ اس کو مزید بڑھایا جائے اور تاخیر ہو مگر اس دوراں جو کام ہوا ہے وہ کافی وقت خرچ کرنے کے بعد تمام چیزیں اکٹھی کی ہیں اور اب تمام چیزیں سامنے آنے کے بعد یہ بیرونی ملک مالی معاونت سے چلنے والی جماعت ثابت ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی کو صرف فنڈز ضبط ہونے کا خطرہ

رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس حوالے سے 2017 کے سیکشن میں لکھا ہے کہ جہاں وفاقی حکومت، کمیشن کے حوالے یا معلومات کی بنیاد پر مطمئن ہو یا کسی دوسرے ذرائع باخبر ہو کہ کوئی سیاسی جماعت ایک غیر ملکی امداد یافتہ سیاسی جماعت ہے یا وہ پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے لیے متعصبانہ انداز میں تشکیل دی گئی ہے یا کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو حکومت اس پر سپریم کورٹ میں گزیٹ ارسال کرے گی اور پھر سپریم کورٹ کی اجازت سے اس پر کام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس پر حکومت کو عمل کرنا ہے جو اس کی صوابدید نہیں ہے کیونکہ قانون میں لفظ ’شیل‘ ہے اور اس فیصلے کے بعد حکومت تو کیا عام آادمی بھی مطمئن ہو سکتا ہے کہ اس پارٹی نے خیرات اور دکھی انسانوں کے نام پر ملک سے اندر اور بیرونی ممالک سے پیسے اکٹھے کیے اور اپنے ایسے سیاسی مقاصد کے لیے ان پیسوں کو استعمال کیا جو ملک میں افراتفری اور فساد پھیلانے کے لیے تھے اور فتنہ خان نے یہ تمام کارروائیاں ملک کا امن تباہ کرنے کے لیے کیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کیا یہ کوئی سیاستدان کا کام ہے کہ جو یہ کہے کہ میں ملک دشمنوں سے بات کر سکتا ہوں، جن لوگوں نے آرمی پبلک اسکول میں ہمارے بچوں کو شہید کیا ان کے ساتھ بات کر سکتا ہوں اور میں دشمن ممالک سے بھی بات کر سکتا ہوں لیکن میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بات نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: ای سی پی کا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم

انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ حکومت کا امتحان ہے اور وہ اس میں ضرور سرخرو ہوگی اور اس کا ضمیر ان تمام چیزوں پر مطمئن ہے جن کو الیکشن کمیشن نے پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ اب یہ عدلیہ کا بھی امتحان ہے کیونکہ نواز شریف کو صرف اس بنیاد پر نااہل کیا گیا کہ اپنے بیٹے سے تنخواہ لینی تھی لی نہیں ہے، مگر اس فیصلے میں دیکھا جائے کہ کون کون سی چیزیں الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیشہ من گھڑت مقدمات بنا کر لوگوں کو چور چور کہا مگر آج ایک آئینی ادارے نے اس کو چور قرار دیا ہے اب اس کو اگر شرم ہے تو وہ ان لوگوں سے معافی مانگے جن کو چور چور کہتا رہا اور اب وہ خود مستعفی ہوجائے۔

حکومت فیصلہ کرے گی پابندی عائد ہوگی یا نہیں، وزیر قانون

اس موقع پر بات کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت بنانا، سیاست کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جماعت کے ذرائع آمدن بھی قانون کے مطابق ظاہر کرنے ہیں اس لیے وہ جماعتیں جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں ان کو ہر مالی سال کے اختتام پر اپنے مالی ذرائع کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: 'پی ٹی آئی نے غیر ملکی اکاؤنٹس چھپانے کی کوشش کی'

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے 2008 سے 2013 تک الیکشن کمیشن میں مالیت اور آمدنی کے ذرائع ظاہر کیے گئے دستاویزات کو غیر منصفانہ، غلط بیانی پر مبنی کہا اور یہ بھی کہا کہ دوراں سماعت بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اکاؤنٹس چھپانے کی کوششیں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے ایک تفصیلی رپورٹ آئے گی جس کے بعد حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس جماعت اور اس کے سربراہ پر پابندی عائد کرنی چاہیے یا نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024