کیا ترجمان پاک فوج فیصلہ کرینگے سازش تھی یا نہیں؟ عمران خان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کیا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار فیصلہ کریں گے کہ خط کے معاملے میں سازش تھی یا نہیں؟ ان کا نقطہ نظر ہوسکتا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر اس معاملے کا فیصلہ کروانا ہے تو وہ اس طرح ہوگا جس طرح صدر پاکستان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ کہتےہیں کہ مداخلت ہوئی، تو کون فیصلہ کرے گا کہ یہ مداخلت ہے یا سازش ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کہا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کریں، میں جب وزیراعظم تھا تو میں نے اس معاملے پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا کہ وہ تحقیقات کرے کہ یہ سازش ہوئی یا نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: خط کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن یا اور کوئی فورم بنا تو ادارہ مکمل تعاون کرے گا، ترجمان پاک فوج
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں تو پتا ہے کہ سازش ہوئی ہے لیکن اس معاملے کی ایک باضابطہ تحقیقات ہونی چاہیے جو ابھی تک ہوئی نہیں، اس لیے ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سازش ہے یا نہیں جب کہ مداخلت کی بات تو سب نے مان لی ہے۔
ماضی کی ایران کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب 1950 کی دہائی میں ایرانی وزیراعظم مصدق کی حکومت نے ملک کی تیل کی صنعت کو نیشنلائز کیا تو امریکا اور برطانیہ کی باہر کی قوتوں نے ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش کی، اس کے لیے انہوں نے وہاں کے میڈیا کو پیسا کھلایا، ان کے خلاف مہم چلائی گئی، پھر ان کے خلاف پیسے دے کر اپوزیشن سے مظاہرے کرائے گئے، مصدق حکومت کے لوگ خریدے گئے، کیا ایسا ہی پاکستان میں نہیں ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ اب کون فیصلہ کرے گا کہ سازش ہوئی یا نہیں، اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہمارے چیف جسٹس اس معاملے کی جوڈیشل کمیشن میں اوپن اور کھلی سماعت کرائیں، بند دروازوں کے پیچھے کی گئی تحقیقات کو ہم نہیں مانیں گے، اوپن سماعت کرائیں اور اس کے اندرپھر جو بھی فیصلہ ہوتا ہے تو پتا چل جائے گا کہ صرف مداخلت تھی یا سازش بھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سازشی مراسلے پر حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، ہمارے پاس ریکارڈ ہے ہمارے لوگ امریکی سفارتخانے میں جایا کرتے تھے، ہمارے اتحادیوں نے بھی اچانک ہی ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا، 8مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی، اس دھمکی کا سیدھا مطلب مجھے ہٹانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’ڈی جی آئی ایس پی آر بار بار سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں تو ملک کیلئے اچھا ہوگا‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے سفیر نے سائفر بھجوایا جو براہ راست میرے تک پہنچا گیا، ڈونلڈ لو نے دھمکی دی عمران خان کو نہ ہٹایا تو اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا، 7مارچ کو ڈونلڈ لو نے آفیشل میٹنگ میں بات کی۔
چیئرمی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں تو معلوم ہے کہ سازش ہوئی اس لئے تحقیقات چاہتے ہیں، جاپان پر 2 ایٹم بم گرائے گئے، دونوں ملک 10 سالوں میں کھڑے ہوگئے، دوسری جنگ عظیم میں جرمنی مکمل طور پر تباہ ہوا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلح افواج اور قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہےایسا نہیں ہونا چاہیے، حقائق مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں، اپنی رائے کا سب کو حق حاصل ہے لیکن جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے، شیخ رشید نے کہا قومی سلامتی اجلاس میں کسی نے نہیں کہا سازش نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے شرکا کو واضح اور مفصل انداز میں بتایا گیاکہ کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا، ایسا کچھ نہیں ہوا، ہماری ایجنسیوں کا 24 گھنٹے کا کام دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تینوں سروسز چیفس موجود تھے، اجلاس کے شرکا کو واضح انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ ایجنسیوں نے تمام چیزوں کو بغور اور پیشہ ورانہ طور پر دیکھا گیا ہے اور اس معاملے میں کسی سازش کے شواہد نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دفاعی بجٹ میں کمی آئی، بجٹ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے جو گزشتہ سال 2.8 فیصد تھا، ترجمان پاک فوج
سازش اور مداخلت کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اتنا کہنا چاہوں گا یہ سفارتی لفظ ہے، سفارتی سطح پر سفارتی ابلاغ میں اس طرح کی چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے، مجھے یقین ہے کہ سفارتکار ہی اس کو بہتر طریقے سے واضح کر سکتے ہیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے جو ایکشن لیا گیا وہ سفارتی طور پر لیا گیا ہے، ہماری طرف سے بہت واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ میجر جنرل بابر افتخار نے آج 'ہم نیوز' کے پروگرام 'بریکنگ ود مالک' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے گزشتہ روز ایک انٹرویو کے دوران کسی قسم کا کوئی سیاسی بیان نہیں دیا، خط کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن یا اور کوئی فورم بنا تو ادارہ مکمل تعاون کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: چوری بچانے والے خود کو بچائیں گے، انصاف کا نظام خطرے میں ہے، عمران خان
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ میں نے صرف پاکستان آرمی کے سروسز چیفس کی جانب سے ایک وضاحتی بیان دیا تھا، گزشتہ ہفتے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی بھی سروس چیف نے یہ نہیں کہا کہ سازش نہیں ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دے کر کہا تھا کہ میں سروسز چیفس کی جانب سے آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ رائے نہیں تھی، یہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انفارمیشن تھی، حقائق کو دیکھ کر ان کے مطابق وہاں یہ ان پٹ دی گئی تھی، اس لیے اجلاس میں موجود سیاسی قیادت نے بھی اس کے بعد میٹنگ کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں کیا۔
ترجمان پاک فوج نے مزید کہا تھا کہ موجودہ حکومت عدالتی کمیشن یا کوئی بھی کمیشن اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک لے جانے کےلیے بنانا چاہے تو وہ بنا سکتی ہے، سابقہ حکومت کے پاس بھی یہ اختیار موجود تھا جب کہ اس حکومت کے پاس بھی اختیار موجود ہے اور اگر حکومت اس معاملے پر کوئی کمیشن یا فورم بناتی ہے تو ادارہ اس سلسلے میں تمام مطلوبہ سہولت اور تعاون فراہم کرے گا۔