• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:25pm

سابقہ حکومت کی بدانتظامی توانائی کے بحران کی ذمے دار قرار

شائع April 17, 2022
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کل ملک میں گزشتہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے — فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کل ملک میں گزشتہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے — فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں توانائی کے موجودہ بحران کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ ​​حکومت کی ’بدانتظامی‘ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جاری لوڈشیڈنگ کا بجلی کی پیداواری صلاحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے ہفتہ کو قومی اسمبلی میں بتایا کہ آج کل ملک میں گزشتہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں: 27 پاور پلانٹس کی خرابی کے باعث ملک بھر میں لوڈشیڈنگ، وزیراعظم برہم

انہوں نے کہا کہ ملک میں 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن گیس اور تیل پر چلنے والے مختلف پاور پلانٹس کی بندش کے باعث ملک کے مختلف حصوں کو گزشتہ چند روز سے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد انہوں نے وزارت پیٹرولیم اور توانائی کے حکام سے لوڈشیڈنگ کے معاملے پر بریفنگ لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو تقریباً 6 ہزار میگاواٹ ہائیڈل پاور کی کمی کا سامنا ہے جس کا تعلق گلیشیئرز کے پگھلنے اور پانی کی دستیابی سے ہے، اس کے باوجود ملک کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی بجلی موجود ہے۔

شہباز شریف نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کوئلے سے چلنے والے اور پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت لگائے گئے سولر پاور پلانٹس اور ساتھ ہی 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل ایل این جی پلانٹس بند پڑے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی 5 روپے سستی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری

انہوں نے کہا کہ ایک ہزار 250 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے پاور پلانٹس میں سے ایک پلانٹ جسے 2019 میں بجلی کی پیداوار شروع کرنا تھی، اس نے ابھی تک کام کرنا شروع نہیں کیا۔

وزیراعظم نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ ​​حکومت نے توانائی کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی اور تیل اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی پاور پلانٹس بند ہو چکے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پچھلی حکومت نے جب ایل این جی کی قیمت صرف 3 ڈالر فی یونٹ تھی تو اس وقت نہیں خریدی اور اب یہ قیمت کئی گنا بڑھ کر 30 سے ​​35 ڈالر فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 16-2015 کے دوران اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قطر کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کا معاہدہ کیا تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس میں خامیاں تلاش کرنا شروع کردی تھیں، آج یورپی ممالک کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے کئی ممالک کو گیس آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت عوامی مسائل سے لاتعلق ہے اور وہ ’پتھر دل‘ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ بجلی کے بلز کی مد میں جمع کیے گئے 40 ارب روپے کی ادائیگی میں ناکام

تاہم نومنتخب وزر اعظم نے ایوان کو یقین دلایا کہ نئی حکومت ملک کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صوبائی حکومت کی طرف سے ایک فاشسٹ اقدام قرار دیا۔

’راول ڈیم چوک انٹر چینج کا ٹھیکا بلیک لسٹ کمپنی کو دیا گیا‘

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ گزشتہ حکومت نے راول ڈیم چوک انٹر چینج منصوبے کا ٹھیکا ایک بلیک لسٹ کمپنی کو دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے آج صبح 7 بجے ایک ارب روپے سے زائد کے منصوبے کا معائنہ کیا، اس کے کنٹریکٹ میں انٹر چینج کو 24 ماہ میں مکمل کرنے کا ذکر ہے لیکن ٹھیکیدار بھاگ چکا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 72 اور 84 روز میں ایسے کئی منصوبے میں نے مکمل کیے ہیں، یہاں لوگ پریشانی کا شکار ہیں لیکن کام پچھلے کئی مہینوں سے رکا ہوا ہے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ اس کمپنی نے اورنج لائن لاہور کا ٹھیکہ بھی حاصل کر لیا تھا لیکن معائنہ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تعمیراتی کام میں خامیاں تھیں جو حادثات اور انسانی جان کے نقصان کا باعث بن سکتی تھیں۔

انہوں نے بلیک لسٹ کمپنی کو ٹھیکا دیے جانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٹھیکا منسوخ کر دیا تھا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے کمپنی کے 90 کروڑ روپے ضبط کیے۔

قبل ازیں وزیراعظم راول ڈیم چوک پہنچے اور جولائی 2020 میں شروع ہونے والے زیر تعمیر انٹر چینج پر کام کا معائنہ کیا۔

بریفنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس کا ٹھیکا فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا جائے گا۔

وزیراعظم نے ایف ڈبلیو او کو 72 گھنٹے میں تعمیراتی کام شروع کرکے ستمبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کی، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ایف ڈبلیو او اس منصوبے کو ایک ارب 10 کروڑ روپے کے بجٹ میں ہی مکمل کرے گی جس پر یہ سابق ٹھیکیدار کو دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 19 نومبر 2024
کارٹون : 18 نومبر 2024