نگران وزیراعظم کیلئے کمیٹی کی تشکیل، اسپیکر نے نام طلب کر لیے
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بدھ کے روز عبوری وزیراعظم عمران خان اور سابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خطوط لکھ کر پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لیے ارکان کے نام مانگ لیے جو آئندہ انتخابات سے قبل نگراں وزیر اعظم کا تقرر کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو بھی ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ اپوزیشن عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد اب کسی بھی عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف کا نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت سے انکار، صدر کو جوابی خط ارسال
شہباز شریف نے نگراں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے پاکستان کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی نامزدگی کو بھی مسترد کر دیا ہے اور اس اقدام کو آئین کی دفعات کو پامال کرنے کی ایک کھلی کوشش قرار دیا ہے۔
توقع ہے کہ اگر اپوزیشن نے کوئی نام پیش نہیں کیا تو سابق چیف جسٹس کا آئندہ عام انتخابات سے قبل نگراں وزیراعظم کے طور پر تقرر کردیا جائے گا۔
اپنے خط میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے عمران خان اور شہباز شریف سے کہا کہ وہ نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 (1) (الف) کے تحت 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے نام دیں۔
آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم اور سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے لیے کسی نام پر متفق نہیں ہوتے تو دونوں قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے فوری طور پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے لیے دو دو نامزدگیاں بھیجیں گے۔
یہ کمیٹی سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی یا سینیٹ یا دونوں کے 8 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی یکساں نمائندگی ہو گی اور کمیٹی کے لیے افراد کے ناموں کو بالترتیب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نامزد کریں گے۔
’گلزار پیشکش پر راضی‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ اپوزیشن نے طریقہ کار کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے، اس لیے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے نئے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے نگراں وزیر اعظم بننے کے روشن امکانات ہیں۔
عبوری وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو سابق چیف جسٹس گلزار کو نگراں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کردیا تھا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک سپریم کورٹ اپوزیشن کے حق میں فیصلہ نہیں دیتی، اس وقت تک یہ یکطرفہ مقابلہ لگتا ہے۔
دریں اثنا صدر عارف علوی، جن کا آئین کے تحت نگراں وزیر اعظم کے تقرر میں کوئی کردار نہیں ہے، اس طریقہ کار میں بہت گرمجوشی سے حصہ لے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس ہفتے کے اوائل میں شہباز شریف کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں عمران خان کے نامزد کردہ سابق چیف جسٹس گلزار اور ان کے بارے میں بتایا گیا تھا اور شہباز شریف سے کہا تھا کہ وہ اس عہدے کے لیے اپنے امیدوار کا نام بھی بھیجیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا
جسٹس گلزار دو ماہ قبل یکم فروری کو ریٹائر ہو گئے تھے اور آئین کے آرٹیکل 207 کے تحت نگراں وزیر اعظم کے طور پر ان کی نامزدگی نے ایک اور تنازع کو جنم دیا ہے، جہاں مذکورہ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو عدالت عظمیٰ یا کسی عدالت عالیہ کے جج کے عہدے پر فائز رہ چکا ہو، اس عہدے کو چھوڑنے کے بعد دو سال گزرنے سے قبل ملازمت پاکستان میں کوئی منفعت بخش عہدہ نہیں سنبھالے گا۔
عبوری وزیر اعظم کے ایک قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ نئے عہدے کے لیے جسٹس گلزار کی رضامندی پہلے ہی لی گئی تھی اور وہ نگراں وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔