فضائی میزبان کی آپ بیتی: استنبول کی گلیاں اور عملے کی تسلیاں
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
‘تسلی’ ایک شعبدہ ہے، ایک ہتھیار ہے۔ اگر اس کا نشانہ صحیح بیٹھے تو بڑے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک جوا بھی ہے۔ کبھی اگر کسی سستے جواری کی چلی ہوئی نکمی چال کی طرح یہ پلٹ کر گلے پڑ جائے تو بہت نقصان بھی ہوتا ہے اور بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔
یہ جملہ صرف فلموں اور ڈراموں میں ہی اچھا لگتا ہے جب کوئی کہے کہ ‘تم فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا’۔ ارے! کیسے ٹھیک ہوجائے گا بھئی؟ کہیں بندے کو پیٹ میں گولی لگی ہوئی ہے اور آپ کہیں اس کو ذرا کہ یار تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوجائے گا! جواب میں وہ آپ کے منہ پر ایسا دست مارے گا (دست : مطلب ہاتھ، یہاں مراد چانٹا) کہ آپ یاد رکھیں گے۔ لیکن دلاسا دینے سے بعض لوگوں کو صبر بھی آجاتا ہے۔
فضائی میزبانی کی نوکری میں تسلی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور عملے کے پاس ہوتی بھی بوریاں بھر کر ہے۔ پرواز میں تاخیر پر تسلی دینا تو عام سی بات ہے اور یہ کام بھی زمینی عملے کا ہوتا ہے لیکن دوران پرواز کوئی مسئلہ ہوجائے تو خدا کے بعد عملے کی تسلی سے ہی کام چلتا ہے۔ ویسے بھی وردی والے تسلی دیں تو بات ماننی ہی پڑتی ہے۔
اب تسلیوں میں نئی جہت لانا بھی ایک بہت مشکل کام ہے۔ مثلاً اللہ خیر کرے گا، او کچھ نہیں ہوتا، یہ تو معمولی بات ہے آپ پریشان نہ ہوں وغیرہ تو وہی پرانی تسلیاں ہیں۔ قصہ یہ ہوتا ہے کہ جہاز میں بندہ تسلی دے کر اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ رہتا مسافر کی آنکھوں کے سامنے ہے لہٰذا اکثر لوگوں کو طعامی اور شرابی تسلیاں دینی پڑتی ہیں۔ (شرابی سے مراد مشروب یعنی جوس اور دیگر گیسی مشروبات)
کسی کا جی متلائے تو تسلی میں سیون اپ کے ساتھ نمک ڈال کر دیا جاتا ہے۔ کہیں سر درد دوائی کے باوجود نہ جائے تو دو چمچ تسلی کے ایک کپ چائے کے ساتھ دینے پڑتے ہیں اور کسی کو ایک سروس کے بعد دوسری سروس کے درمیان ہی بھوک کی تپش آن لے تو اس کے اوپر ‘اضافی’ سینڈوچ کی تسلی کا سایہ کرنا پڑتا ہے۔
سیالکوٹ سے کراچی کی پرواز تھی۔ میں اور یاسر درجہ اوّل (بزنس کلاس) میں کام کر رہے تھے۔ مجھ سمیت 4 اراکین پر مشتمل اس پرواز کو میں لیڈ کر رہا تھا۔ دوران پرواز جہاز کے پچھلے حصے سے انٹرکام پر ساتھی نے بتایا کہ ایک خاتون کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ چونکہ پچھلے حصے میں مسافروں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے میں ان کی مدد کو پیچھے چلا گیا تاکہ وہ سروس کرسکیں۔
جاکر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر خاتون اپنے بھائی کے ساتھ سفر کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ مجھے سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے۔ بھائی سے پوچھا کہ یہ بیمار تو نہیں یا کوئی سانس کا عارضہ وغیرہ تو نہیں۔ جواب نفی میں تھا۔ میں نے آکسیجن کی بوتل نکال کر اس کا پائپ تیز بہاؤ والے رخ لگا کر ماسک ان کے منہ پر لگا دیا۔ ان کی حالت کچھ سنبھل گئی تو میں نے تسلیوں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ واپسی پر ‘وے ویرا تیری مہربانی’ کا تمغہ سجا کر جہاز سے اترا۔ بنیادی طور پر انہیں ہوائی سفر سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
ایک صاحب مدینہ کی پرواز پر تشریف لائے۔ بصارت سے محروم تھے۔ ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ ان سب نے تو حفاظتی اقدامات اور ہنگامی اخراج کے راستے عملی مظاہرے کی ویڈیو میں دیکھ لیے۔ لیکن سب کو پریشانی تھی کہ ان کے یہ ساتھی ہنگامی حالت میں اپنے آپ کو کیسے سنبھالیں گے۔ پھر میں نے ان کو آکسیجن ماسک کی جگہ پر ہاتھ رکھوا کر بتایا کہ اس میں سے ماسک نکلے گا اور اس کو کھینچ کر پہننے کا طریقہ بتایا۔ عملی مظاہرے میں استعمال ہونے والا ماسک ان کو پکڑا دیا تاکہ وہ یہ جان لیں کہ کس طرح کا ماسک ہنگامی حالت کے دوران ان کو میسر ہوگا۔ پھر ہنگامی حالت میں نکلنے کے لیے دروازے کا راستہ سمجھایا۔ وہ ہنگامی دروازے سے دو قطاریں چھوڑ کر بیٹھے تھے۔ اس طرح وہ کافی پُرسکون ہوگئے۔
جب میں نے نوکری شروع کی تو استنبول، ایتھنز اور بہت سی دوسری پروازیں تقریباً ختم ہوچکی تھیں۔ یورپ اور گلف کی پروازیں تو اتنی مستقل مزاجی سے آتی تھیں کہ میں گھر کے قریب موجود رشتہ داروں کے یہاں نہیں جا پاتا تھا اور مہینے میں دو، تین مرتبہ لندن یا جدہ ہو آتا تھا۔ ویسے اس میں میرا قصور نہیں تھا کیونکہ اس نوکری میں سماجی رابطے بس موبائل تک محدود رہ جاتے ہیں۔ بندہ ہفتے میں 400 یا 500 لوگوں سے مل لے تو پھر بعض اوقات اپنی شکل بھی دیکھنے کا دل نہیں چاہتا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اپنے نصیب کے گاؤں میں بجلی آئی اور استنبول کی پرواز کا قرعہ میرے نام نکلا۔
اس پرواز پر لاہور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا عملہ موجود تھا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس پرواز کا دورانیہ صرف 5 گھنٹے تھا اور دوسرا یہ کہ سروس صرف ایک بار کرنی تھی۔ استنبول میں قیام تقریباً 4 دن کا تھا۔ ان سب باتوں کی بدولت مجھے ایسا لگا جیسے میں چھٹیوں پر جا رہا ہوں۔ کسی بھی جگہ پہلی مرتبہ جانے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے اور اچھے ساتھی مل جائیں تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔
دوران پرواز ایک سینئر ساتھی نے پوچھا ‘ہاں بھئی کے جے، لیریں لے کر آیا ہے یا نہیں؟’ میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ پرواز پر ‘لیریں’ لا کر کیا کرنا تھا، تو کہنے لگے کیوں بھائی، وہاں استنبول میں کھاؤ پیو گے کیسے؟ وہاں لیریں دے کر ہی تو سب کام ہوتا ہے۔
مجھے بڑا افسوس ہوا کہ معلوم ہوتا تو کسی درزی سے رابطہ کرتا لیکن اسی دوران ایک اور ساتھی نے کان میں بتایا کہ سر ترکی کی کرنسی ‘لیرے’ کی بات کر رہے ہیں، شاید ناک میں بولنے کی وجہ سے ‘لیریں’ سنائی دے رہا ہے۔ پھر ان کی بات میری سمجھ میں آئی۔ میرے پاس امریکن ایکسپریس کے کچھ ٹریولر چیک رکھے تھے جو میں نے مقامی کرنسی میں ہوائی اڈے سے ہی تبدیل کروا لیے۔
ریڈیسن ایس اے ایس ہوٹل میں قیام تھا جو شہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو دو بیڈ نظر آئے۔ سوچا ایک پر سامان رکھ دیتا ہوں۔ پھر سوچا کیا معلوم کسی ‘مخلوقِ خدا’ نے اس پر آرام کرنا ہو جس کی وجہ سے میرا آرام خراب نہ ہو اس لیے دوسرے بیڈ کو خالی ہی رہنے دیا۔ شکر ہے کسی اور ‘مخلوق’ کی وہاں آرام کرنے کی نوبت نہ آئی اور آخری دن تک اس بیڈ کی شیٹ کے ماتھے پر ‘شکن’ تک نہ آئی۔
صبح ناشتہ گاہ میں پہنچا تو ایسے لگا جیسے کسی ترک بادشاہ کا دسترخوان ہے۔ انگریزی، ہندی اور امریکن ناشتے کے علاوہ روایتی ترک ناشتے میں شامل ایسی ایسی سوغات و مقویات تھیں جو چشمِ فقیر نے نہ دیکھی تھیں۔ اتنا کچھ چکھنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا لیکن جب انتظامیہ نے دوپہر کے کھانے کے انتظامات کرنے سے پہلے مجھے ‘کاردیش! تیری مہربانی’ کہہ کر جگہ خالی کرنے کو کہا، تب تک بھی کافی چیزیں چکھنے سے رہ گئیں۔ (کاردیش ترک زبان میں بھائی کو کہتے ہیں، کہیں آپ کچھ اور نہ سمجھیں)۔ آج کا باقی کام میں نے کل پر رکھا اور فضائی عملے کے مروجہ قوانین کے مطابق ناشتے کے بعد سو گیا۔
استنبول کی گلیاں چھاننے کو نکلے تو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح کے محل جا پہنچے۔ محل کا کچھ حصہ ترقیاتی کام جاری ہونے کی وجہ سے بند تھا تاہم جتنا کھلا تھا وہ ہم نے دیکھ لیا۔ سنا ہے ان بادشاہ صاحب کو شادیاں کرنے کا کافی شوق تھا۔ یقین ہوگیا جب ایک بڑی عمارت کے دروازے پر ‘حرم’ لکھا دیکھا۔ لیکن اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم نے بھی اندر جانے کی کوشش نہیں کی۔ کیا معلوم اندر پردے کا کیا انتظام ہو۔ اور ویسے بھی کسی پرائے ملک کے بادشاہ کے حرم میں ایسے ہی نہیں گھسنا چاہیے کیوں کہ انسانی جسم میں گردن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔
قریب ہی ٹوپ کاپی عجائب گھر تھا۔ قسمت سے اس کا بھی کافی حصہ تعمیراتی کام کی وجہ سے بند تھا لیکن پھر بھی کافی کچھ دیکھنے کو ملا۔ پرانی اور روایتی ترک تہذیب، سلاطین کے پہناوے اور جنگی سازو سامان کے علاوہ مسلم دنیا کے بہت سے تبرکات اور اہم چیزیں بھی وہاں موجود ہیں جیسا کہ حضرت علیؓ کے ہاتھ سے خط کوفی میں لکھا قران، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی تلواریں اور خانہ کعبہ کے پرانے تالے اور چابیاں۔
اس کے بعد المشہور نیلی مسجد (بلیو موسک) دیکھی۔ فنِ تعمیر کا عظیم شاہکار۔ سیاحوں کا کافی رش تھا لیکن ہم نے بھی دیکھ کر ہی دم لیا۔ اندر سے بھی مسجد بہت خوبصورت اور وسیع ہے۔ ایک جانب خواتین کے لیے مخصوص جگہ بھی تھی۔
ہوٹل کی طرف سے سیاحت کے واسطے جو گاڑی ملی اس کے ڈرائیور صاحب سے ہم سب کی دوستی ہوگئی۔ وہ ہمیں کاردیش اور ہم اسے ‘پائین’ کہتے نہ تھکتے۔ ہم نے اسے بتایا کہ پائین ہماری زبان میں بھائی کو کہتے ہیں۔ باقی باتیں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہوتی تھیں۔ آخر میں ہم اسے کاردیش اور وہ ہمیں پائین پکارنے لگا۔
یہی ترک پائین ہمیں پھر حضرت ابو ایوب انصاری کے مقبرے پر بھی لے گئے۔ یہ ایک خوبصورت احاطہ تھا۔ اطراف میں پھولوں کی کیاریاں تھیں اور فوارے بھی لگے ہوئے تھے۔ یہاں ہم نے رسولِ خدا ﷺ کے نقشِ پا کی زیارت کی۔ مقبرہ کا اندرونی کمرہ بند تھا اور صرف جالی سے اندر جھانکا جا سکتا تھا۔ باہر نکلے تو رنگ برنگے کپڑوں میں روایتی ساز بجاتا ایک ترک بینڈ رواں دواں تھا۔ موسیقی سے لطف اندوز ہوئے اور شہر کی طرف نکل پڑے۔
مشہورِ زمانہ تقسیم چوک جا پہنچے۔ ان دنوں وہاں لوگ کم اور کبوتر زیادہ تھے۔ اطراف میں بازار موجود تھے جہاں روایتی ترک دکانوں کے ساتھ بڑے بڑے مال بھی موجود تھے۔ تقسیم چوک کے پاس ہی ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹیولپ کے پھولوں کی نمائش ہے اور کافی رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ پائین کہنے لگے کہ ٹیولپ ترکی میں پہلے اگا تھا، ہالینڈ میں تو یہ پھول بہت بعد میں آیا ہے۔ خیر میں پھولوں کی اس جنگ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا لہٰذا کچھ دیر کو نمائش کا لطف اٹھایا۔
آخر میں وہ عظیم پل دیکھنے کی ٹھانی جو ایشیا کو یورپ سے علیحدہ کرتا ہے۔ ایک ساتھی کہنے لگا یار کے جے، بس وہ ‘فاسفورس’ برج رہ گیا ہے دیکھنے والا۔ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور اس کی کیمیائی مساوات درست کرتے ہوئے ف کے حرف کو ب سے بدلا اور باسفورس کا پل دیکھنے کے لیے نکلے۔ باسفورس کے دریا کنارے پہنچے تو ایک ‘فیری’ (بڑی کشتی) تیار کھڑی تھی۔ جلدی سے سوار ہوئے اور کچھ دیر بعد دریا میں رہتے ہوئے ہی پل کا نظارہ کرکے واپس آگئے۔
ہوٹل کے قریب سے ہی ان دنوں ٹکا کر ترکش ڈونر کھائے جو شوارمے کا کزن لگتا ہے۔ اس کے بعد واپس پاکستان جانے سے پہلے ایک خاص جگہ کا دورہ کیا جہاں ‘ترکی خوشیاں’ وافر مقدار میں میسر تھیں۔ دل ہی نہیں بھر رہا تھا ان سے اور زیادہ کی طلب ہوتی رہتی تھی لیکن کیا کرتا واپس بھی آنا تھا۔ آپ کیا سمجھے؟ جناب میں ترکی کی مشہور مٹھائی ‘ترکش ڈیلائٹ’ کی بات کر رہا ہوں۔ بس یہی چھوٹی چھوٹی ڈیلائٹس اور حسین یادیں لے کر واپس وطن آ پہنچا۔
تبصرے (6) بند ہیں