• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اسپیکر نے 14 روز کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی، شہباز شریف

شائع March 21, 2022 اپ ڈیٹ March 25, 2022
شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری و دیگر رہنما سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری و دیگر رہنما سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، اسپیکر نے او آئی سی اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا. انہوں نے جان بوجھ کر آئین سے انحراف کیا۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد 14 روز کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین سے انحراف کیا، اسپیکر نے قانون سے جو انحراف کیا ہے وہ معاملہ اب عدالت کے اندر زیر سماعت ہے اور اس پر فیصلہ اب عدالت کرے گی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے او آئی سی اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا، اسپیکر نے جان بوجھ کر 14 روز کے اندر اجلاس نہیں بلایا اور آئین کی خلاف ورزی کی، اپوزیشن کو ٹریپ کرنے کے لیے اسپیکر نے اجلاس نہیں بلایا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیر تک پیش نہ کرنے پر دھرنے، او آئی سی اجلاس میں رکاوٹ ڈالنے کی دھمکی

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اجلاس کے باعث اپنا لانگ مارچ ملتوی کیا، او آئی سی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آنے والے رہنما ہمارے مہمان ہیں، ہمارے بھائی ہیں، ہم دل ول جان سے ان کا استقبال کرتے ہیں، انہیں خوش آمدید کہتے ہیں، اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیا جانے والے پروپیگنڈا بے بنیاد ہے۔

حکومت گھبراہٹ میں آئین توڑنے پر اتر آئی، بلاول بھٹو

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اراکین کو ووٹ ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حکومت اتنی گھبرائی ہوئی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے بھاگنے کے لیے آئین توڑنے پر اتر آئی ہے، حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت نے پہلے پارلیمنٹ لاجز پر حملہ کیا، اس کے بعد سندھ ہاؤس میں پناہ لینے والے اراکین کے خلاف اپنے کارکنان کو اشتعال دلا کر ان پر سندھ ہاؤس میں حملہ کرایا گیا۔

مزید پڑھیں: تحریک پیش ہونے کے 14 روز میں اجلاس نہ بلانا آئین شکنی ہے، عدالت جائیں گے، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا بلکہ بار ایسوسی ایشنز نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا۔

بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کو چاہیے کہ وہ کسی بھی اقدام سے پہلے اپنے وکلا سے مشورہ کریں، یہ حکومت آئین شکنی کر رہی ہے، یہ حکومت انہیں آئین شکنی کا مجرم بنا رہی ہے۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت میں یقین دہائی کرائی کہ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

حکومت کی ہر بات میں تضاد ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی، اس حکومت میں ملک میں جمہوریت نہیں ہے، ایک آمرانہ طرز حکومت ہے، آمرانہ سوچ ہے، یہ حکومت چور دروازے سے اقتدار میں آئی ہے اور مختلف حیلوں، بہانوں سے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد شفاف الیکشن پر اتفاق ہے، بلاول بھٹو

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس حکومت نے ملک کی معیشت تباہ کردی، ملک میں بھوک و پیاس کو عام کردیا، اس کے باوجود حیرت ہے کہ ان کو عوام کے سامنے آنے کی ہمت کیسے ہو رہی ہے، ہم اس حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے حق اور سچ کا علم بلند کرتے ہوئے میدان عمل میں ہیں اور اس فتنہ حکومت کے خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

ہارس ٹریڈنگ سے متعلق وزرا کے بیانات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا حکومت کی کونسی بات میں تضاد نہیں ہے، ان کی پوری تاریخ تضادات سے بھری ہوئی ہے، آج ایک بات کہتے ہیں، کل دوسری بات کرتے ہیں، جب ان کی حکومت بنانے کے لیے جہاز گھوم رہے تھے تب وہ آنے والے لوگوں کو ضمیر کی آواز پر آنے والے کہتے تھے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ آج جب ان کے لوگ ان کی حکومت کی نااہلی، نالائقی اور بری کارکردگی سے نالاں و ناراض ہوکر ان سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں تو وہ انہیں ضمیر فروش اور ہارس ٹریڈنگ میں ملوث قرار دے رہے ہیں، کس کس بات کا حوالہ دیا جائے، ان کی ہر بات میں تضاد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ کی وجہ سے 23 مارچ کو احتجاجی قافلے اسلام آباد نہیں آئیں گے، اپوزیشن

ان کا کہنا تھا کہ ہم 25 مارچ کو اپنا لانگ مارچ شاہراہ دستور پر لے کر آئیں گے جبکہ ہم نے اس سے قبل پرامن آزادی مارچ بھی کیا، اس لیے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم توڑ بھوڑ اور تشدد پر یقین رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما عدالت پہنچے تھے۔

عدالت میں سماعت کا مشاہدہ کرنے والے رہنماؤں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) کے اختر مینگل شامل تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024