آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت میں کہا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل (ii) 95 کے مطابق، جو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے طریقہ کار سے متعلق ہے، کسی رکن کے انفرادی ووٹ کی کوئی ’حیثیت’ نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدالت پہلے بھی مقدمات میں اسی طرح کی آبزرویشن دے چکی ہے جن کا تعلق سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما بھی عدالت پہنچے، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مولانا فضل الرحمٰن، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل شامل تھے۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت
دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ حکم میں کہا تھا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کے علاوہ کوئی واقعہ نہیں ہوا، اسپیکر قومی اسمبلی نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا ہے، آئین کی دفعہ 95 کے تحت 14 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا لازم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ قواعد کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدالت اب تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔
دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آئین کا آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔
ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، جسٹس منیب
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، اس آرٹیکل کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہے ووٹ ڈالیں، بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی آبزرویشن رکاوٹ بنے گی، سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟
وکیل ایس بی سی اے نے کہا کہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے۔
بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتحاب کرتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟ جس پر وکیل نے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ آرٹیکل تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آسکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق کسی رکن کا ابیسولیوٹ (قطعی) نہیں ہوتا، آپ تو بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسویشن عوامی حقوق کی بات کرے۔
بار کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار ایسوسی ایشن کو کیا مسئلہ ہے؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ سندھ ہاؤس میں کیا ہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کروانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں، بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟
جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق 42:5 بجے 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے۔
آئی جی نے بتایا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، دو اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی کارروائی کرے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شکایت ہو، وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او ائی سی) کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے۔
عدالت کو آئی جی اسلام آباد نے آگاہ کیا کہ جے یو آئی (ف) نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو انہیں بلوچستان ہاؤس کے قریب روک لیا گیا، سندھ ہاؤس واقعے پر شرمندہ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتی، اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے اثرات سامنے آئے، ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا، دیکھیں گے سندھ ہاؤس حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔
کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پارلیمانی کارروائی پر بات نہیں کررہی ورنہ تاخیر کی وجہ بتاتا، بار نے تمام اداروں کو قانون کے مطابق اقدامات کی استدعا کی ہے، بار کی دوسری استدعا امن و امان اور جلسے جلوس کے حوالے سے ہے، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہوگا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کر رہے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل 63-اے کی کارروائی ہو گی، حکمران جماعت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بطور اٹارنی جنرل کسی اپوزیشن جماعت پر بھی الزام نہیں لگاؤں گا،بینظیر بھٹو نے عدم اعتماد پر اراکین کو زبردستی لانے کا حکم دیا تھا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے ووٹرز کو چھانگا مانگا جیسی جگہ پر رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی رکن اجلاس میں نہ آنا چاہے تو زبردستی نہیں لایا جائے گا، پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکے اور اس کا رکن اسمبلی چلا جائے تو کیا ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، اس نکتے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی سرکاری افسر غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ پارلیمانی کارروائی آئین کے مطابق ہوگی۔
اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حالات میں تلخی ہے اس لیے اسپیکر صاحب کو اجلاس بلانا چاہیے، تاہم چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہیں کہ 25 کو اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے بتائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ان وجوہات کو دیکھنے کا جواز نہیں ہے، ایڈوائزری اختیار میں صدارتی ریفرنس آیا ہے، یہ محض قانونی مسلۂ نہیں بلکہ یہ سیاسی مسلۂ بھی ہے، اس میں انا نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے، اگر آپ لوگوں کو خدشات ہیں کہ تصادم ہو سکتا ہے تو ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں الیکشن ہوتا ہے وہاں ہم رک جاتے ہیں، ہمیں مواد دیکھا دیں اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈیکٹ بنا لیں گے۔
پس منظر
خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع تصادم کو روکنے کے لیے 17 مارچ کو عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ممکنہ سیاسی تصادم کا خطرہ: سپریم کورٹ نے 4پارلیمانی جماعتوں کو نوٹسز جاری کردیے
بعدازاں 19 مارچ کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے حکمراں جماعت پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) بی این پی مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کو ان کے سیکریٹری جنرلز کے ذریعے نوٹسز جاری کیے تھے۔
عدالت نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے علاوہ 6 سیاسی جماعتوں سے معاونت طلب کی تھی اور اسلام آباد پولیس کو سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کارکنا کے دھاوے سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایس بی سی اے نے کیس میں وفاق، وزیراعظم عمران خان، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر، اسپیکر قومی اسمبلی، سیکریٹری قومی اسمبلی، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا تھا۔
مذکورہ درخواست تحریک عدم اعتماد اور اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جلسوں کے اعلان کے پیش نظر دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: سیاسی جماعتوں میں تصادم کا خطرہ، سپریم کورٹ بار کا عدالت سے رجوع
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی سیاسی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔
ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران کی جانب سے (تحریک عدم اعتماد کے حق میں) ووٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت تمام اسٹیلک ہولڈرز کو تحریک عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہونے دینے کا حکم دیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ تمام ریاستی اداروں کو سختی سے آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت کسی بھی نقصان دہ اور غیر ضروری طریقے سے کام کرنے سے روکا جائے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 27 مارچ کو جلسے میں 10 لاکھ کا مجمع اکھٹا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں