تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے عمران خان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
پاکستانی سیاست میں ایک زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے اور حزبِ اختلاف نے اب وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔
یہ فیصلہ اس بات کا اظہار ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں اتنے ووٹ جمع کرلیے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو چلتا کرسکیں۔
یقینی طور پر یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا ہے اور اس وقت حالات کسی بھی طرح پی ٹی آئی کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی منتخب حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
کھیل شروع ہوچکا ہے اور طرفین سیاسی بھاؤ تاؤ شروع کرچکے ہیں۔ بہرحال ابھی ووٹنگ سے پہلے تقریباً 2 ہفتوں کا انتظار باقی ہے۔ پاکستانی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے حکومت کے خلاف متحد ہوجانے کے بعد گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ملک کے سیاسی منظرنامے میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس احساس نے بھی اپوزیشن کو محترک کر رکھا ہے کہ ملک کی عسکری قیادت نے خود کو حکومت سے دُور کرلیا ہے۔
انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے حزبِ اختلاف نے عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا جس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ چکا ہے۔ حکومت اس کی حدت بھی محسوس کررہی ہے اور یہ بات وزیرِاعظم کی جانب اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملاقات سے ظاہر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے اقدامات کے بجائے خود حکومتی جماعت میں پیدا ہونے والا انتشار ہی حکومت کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ ناراض اراکین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے وزیرِاعظم کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خلاف سامنے آنے والے حالیہ اتحاد نے ایک ایسے گروہ سے پردہ اٹھایا ہے جو مرکز میں بھی پی ٹی آئی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ایک جانب حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس بڑی لڑائی کے لیے تیاری کررہی ہیں تو دوسری جانب وزیرِاعظم بھی آخری دم تک لڑنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ عوام میں جانے کا ان کا فیصلہ حالات کو اپنے حق میں کرنے کی ایک مایوس کن کوشش نظر آرہی ہے۔ لیکن شاید وہ اس سے کچھ حاصل نہ کرسکیں۔ گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب میں ایک عوامی اجتماع میں کی گئی ان کی تقریر اس بات کا اشارہ تھی کہ وہ دباؤ میں آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی اس گھن گرج نے ان کی کمزوریوں کو مزید عیاں کردیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم کے حملے صرف حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں پر نہیں تھے بلکہ انہوں نے عوام میں کھڑے ہوکر مغربی ممالک پر بھی سخت تنقید کی اور ان کے دہرے معیار کو بُرا بھلا کہا۔ بہت کم ہی ایسا دیکھا گیا ہے کہ کوئی سربراہ حکومت ملکی سیاست کے لیے حساس خارجہ معاملات کا اس طرح استعمال کرے۔
اگرچہ ماضی میں بھی وزیرِاعظم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے خارجہ تعلقات کو نقصان پہنچا چکے ہیں لیکن حالیہ بیانات تو انتہائی نامناسب تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اہم خارجہ اور سیکیورٹی معاملات کو بہتر طور پر نہیں سمجھتے۔
لگتا ہے کہ ایسا عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش والے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ عوامی سیاست کی ایک بہت پرانی چال ہے کہ جب مشکل حالات آئیں تو قومیت کا پتہ کھیلا جائے۔ شاید اس دفعہ یہ چال بھی نہ چلے کیونکہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
بلاشبہ یہ پی ٹی آئی حکومت کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ درحقیقت حزبِ اختلاف کے اتحاد کے بجائے یہ پارٹی میں ہونے والی اندرونی بغاوت ہے جو پی ٹی آئی کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لگ رہا ہے کہ وزیرِاعظم اس بغاوت کو روکنے کے لیے اپنے چنیدہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے تیار ہیں لیکن شاید اب بہت دیر ہوچکی ہے۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ نئے امیدوار پر اتفاق موجود نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) وزیرِ اعلیٰ کے طور پر پرویز الہٰی کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی حکومت پر لٹکتی ہوئی عدم اعتماد کی تلوار دیکھ کر مسلم لیگ (ق) نے بھی اپنے مطالبات میں اضافہ کردیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کی خبروں کے بعد سے مسلم لیگ (ق) کی حیثیت مزید مستحکم ہوچکی ہے۔
اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وزیرِاعظم اہم ترین صوبے کی اہم ترین کرسی کسی اتحادی کے حوالے کردیں۔ پارٹی میں پڑنے والے شگاف اتنے گہرے ہیں کہ انہیں صرف پیوند لگا کر نہیں بھرا جاسکتا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے پاس معمولی اکثریت ہے اور مسلم لیگ (ق) اگر اپنی حمایت ختم کردے تو پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کا گرنا طے ہوجائے گا، یوں ملک کی تمام تر سیاست ہی بدل جائے گی۔
پنجاب کی حکومت گرنے سے واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگا جو بلآخر اس پورے نظام کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ عوامی بیانات کی مدد سے رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی وزیرِاعظم کی کوشش شاید اب حالات کو نہ بدل سکے۔
یہ بات اب صاف ظاہر ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت ہونے کے باوجود وہاں کی عوامی سیاست پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ صوبے میں پی ٹی آئی کے غیر مقبول ہونے کے کئی عوامل میں سے ایک اہم وجہ عمران خان کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ کے لیے عثمان بزدار کا انتخاب تھا۔
اس وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر بڑھتی ہوئی نااتفاقی کسی بھی طور پر حیران کن نہیں ہے۔ وزیرِاعظم کے لیے پنجاب میں حکومت سے متعلق بحران کو حل کیے بغیر تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ حزبِ اختلاف کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹکٹ دیے جانے کے وعدے پر پی ٹی آئی کے کئی اراکین قومی اسمبلی میں ان کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہیں۔
تاہم اپوزیشن اتحاد کے لیے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی وفاداری خریدنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ یہ طاقت کا ایسا مضحکہ خیز کھیل ہے کہ جس میں اراکین سب سے اچھی پیشکش کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آگے کیا ہوتا ہے یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آیا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس کھیل میں نیوٹرل رہتی ہے یا نہیں۔
اس عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ ہی ملکی سیاست کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ شاید پی ٹی آئی حکومت کا جانا بھی غیر یقینی کی موجودہ صورتحال کو ختم نہ کرسکے۔ عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کی ناکامی کی صورت میں حکومت کا طرزِ عمل مزید آمرانہ ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون 09 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔