قومی صحت کارڈ: کیا حکومت اپنی ناکامی پر پردہ ڈال رہی ہے؟
تصور کیجیے کہ ہمارے وزیرِاعظم 200 کنال اراضی پر محیط اپنی رہائش گاہ کے باغیجے میں بیٹھے ہوں۔ وہ یوں ہی اپنا فون اٹھائیں اور اپنے شناختی کارڈ کا نمبر 8500 پر ایس ایم ایس کریں۔
انہیں کچھ اس قسم کا جواب موصول ہونا چاہیے کہ ’محترم درخواست گزار، عمران احمد خان نیازی، آپ قومی صحت کارڈ کے لیے اہل ہیں اور منتخب اسپتالوں سے 10 لاکھ روپے تک کے علاج کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں‘۔ اتنا سادہ سا طریقہ کار ہے صحت کارڈ کا، ہے نا؟ نہیں، کیا ایسا نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمارے ملک کے وزیرِاعظم کے علاج معالجے کے اخراجات حکومت کے ذمے ہیں لیکن ہیلتھ کارڈ کے تحت ملنے والی انشورنس کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ پھر بھی 10 لاکھ روپے تک کی ہیلتھ انشورنس حاصل کرسکتے ہیں۔
وزیرِاعظم تو ایسا نہیں کریں گے لیکن ایسے کئی لوگ ہیں جنہیں اپنے آجیر کی جانب سے ہیلتھ انشورنس حاصل ہے یا جو اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں مگر وہ بھی صحت کارڈ کے بدلے کسی نجی اسپتال میں علاج کو ترجیح دیں گے کیونکہ ظاہر ہے کہ کون مفت کی چیز جانے دے گا؟
مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں
صحت کارڈ کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر شخص اس کا اہل ہے، لیکن یہی اس کا سب سے بڑا نقصان بھی ہے۔ اس کے تحت مستحق افراد کو ہدف بنانے کے بجائے ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
ہماری شہری آبادی تو چالاکی سے تمام مراعات کا استعمال کرلے گی لیکن ضرورت مندوں کو اپنی جیب سے علاج کے اخراجات اٹھانے ہوں گے۔ صحت کارڈ میں نہ ہی آؤٹ پیشنٹ علاج دستیاب ہے اور نہ ہی اس پر ادویات خریدی جاسکتی ہیں۔ اگر مریض اسپتال میں داخل نہیں ہے تو پھر اس کارڈ پر ضروری ٹیسٹ بھی نہیں کروائے جاسکتے۔ ان تمام ضروریات کے لیے غریبوں کو پہلے سے موجود سرکاری اسپتالوں پر ہی منحصر رہنا ہوگا۔ لیکن چونکہ وہاں بھی تمام انتظامی اور مالی توجہ صحت کارڈ پر مرکوز ہوگی اس وجہ سے وہاں کا انفرااسٹرکچر بھی ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکے گا۔
پاکستان میں ایک غریب خاندان شاید ہی کبھی اسپتال میں علاج کرواتا ہو۔ بڑے شہروں میں صحت کی بہتر سہولیات مہنگی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ ابھی اس صحت کارڈ کی ابتدا ہی ہے لیکن ہم ابھی سے اس کے غیر ضروری استعمال کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صحت کی سہولیات اب اربوں روپے کی صنعت بن چکی ہے اور نجی اسپتال اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یوں حکومت ان لوگوں پر بھی پیسہ خرچ کررہی ہوگی جنہیں ان بیماریوں کے لیے مالی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی کہ جن کا علاج بہت کم قیمت میں ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: نظام صحت میں موجود صنفی عدم مساوات
محتاط اندازوں کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت 2016ء میں اس منصوبے کے آغاز سے اب تک اس پر 12 ارب روپے خرچ کرچکی ہے۔ وزارتِ تجارت کی ویب سائٹ پر موجود فیزیبلٹی رپورٹ کے مطابق ایک 60 بستروں پر مشتمل اسپتال پر تقریباً 13 کروڑ 60 لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ اس لاگت میں اسپتال چلانے کی لاگت بھی شامل ہے۔ لیکن چلیں ہم اس لاگت کو 20 کروڑ روپے فرض کرلیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صوبائی حکومت اب تک جتنا سرمایہ صحت کارڈ پر لگا چکی ہے اتنے سرمائے سے وہ 60 اسپتال قائم کرسکتی تھی۔
اب 450 ارب روپے کی لاگت سے اس اسکیم کو پنجاب، وفاقی دارالحکومت، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی شروع کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ گجرانوالہ میں بھی 4 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا 500 بستروں کا اسپتال بھی رواں سال مکمل ہوگا۔ اس اسپتال میں ادویات، بچوں کی سرجری، عمومی سرجری، ای این ٹی اور اوپتھامولوجی کے شعبہ جات، پیتھالوجی لیبز، ڈائیگنوسٹک سہولیات، اعضا کی پیوند کاری، دل کے امراض کے یونٹ، آئی سی یو، سی سی یو، ڈائلیسز کی سہولیات سمیت تمام سہولیات موجود ہوں گی۔
اگر حکومت نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کو نوازنے کی کوشش نہ کرتی تو پنجاب کے ہر ضلع میں اس طرح کے اسپتال تعمیر کرسکتی تھی یعنی کل 36 اسپتال اور اس کے بعد بھی دیگر اخراجات کے لیے 90 ارب روپے بچتے۔
یہ اسپتال آنے والے کئی سالوں تک عوام کو ان پیشنٹ اور آؤٹ پیشنٹ علاج فراہم کرتے۔ اگر یہ اسپتال ملک بھر میں موجود ہوتے تو عوام کو ان تک رسائی میں بھی آسانی ہوتی۔
مزید پڑھیے: ہمارے اردگرد ڈپریشن اتنا عام کیوں ہوگیا ہے؟
آخر حکومت نے اپنے طور پر صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے بجائے نجی شعبے کو شامل کرنے کا کیوں سوچا؟ اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں، یا تو نجی شعبے کے مافیا نے ایک اچھا موقع دیکھا اور حکومت کو راضی کرلیا یا پھر شاید یہ نئے اسپتالوں کی تعمیر اور مالی غبن پر قابو پانے کے حوالے سے حکام کی نااہلی کا اعتراف تھا۔ یا پھر یہ ڈاکٹروں کو دُور دراز مقامات پر نوکری کے لیے قائل نہ کرنے پر انتظامی ناکامی کا اعتراف تھا۔
آخری بات، وزیرِاعظم نے پنجاب میں قومی صحت کارڈ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ ان کی حکومت برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے ہے جہاں اسی طرح کے مفت علاج کی سہولت صرف سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بصیرت اور ذہانت میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ذہانت کی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔
یہ مضمون 12 فروری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (8) بند ہیں