بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف عدالتی بلکہ انتظامی امور بھی سرانجام دیے، جسٹس گلزار احمد
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ نے کورونا وائرس کے دوران بھی مقدمات کی سماعت کی اور اپنے دور میں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ انتظامی امور بھی سرانجام دیے۔
اسلام آباد میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران عہدے سے سبکدوش ہونے چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنی تمام تر کامیابیوں کا سہرا اپنے والد محمد نور ایڈووکیٹ کے سر سجایا۔
بطور چیف جسٹس اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا جج بھی بنا اور اس وقت بھی ایمانداری سے کام کیا، نومبر 2011 میں مجھے سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور دسمبر 2019 میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔
سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کیے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران بھی انہوں نے عدالتی امور انجام دیے اور ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں: لوگوں کے حقوق بحال کرنا سپریم کورٹ کا بنیادی کام ہے، چیف جسٹس
جسٹس (ر) گلزار احمد نے بتایا کہ ان کے دور میں 38 ہزار 680 کیسز التوا کا شکار تھے، بحیثیت چیف جسٹس انہوں نے 4 ہزار 392 کیسز پر فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس کے تقرر میں سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی ہوئی، صدر سپریم کورٹ بار
فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی کے صدر احسن بھون نے ریٹائرڈ چیف جسٹس گلزار احمد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد کے بطور جج تقرر میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ہوئی، میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کہا کہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی کے اصول پامال کیے گئے۔
اس موقع پر احسن بھون نے چیف جسٹس گلزار احمد کے فیصلوں کی تعریف بھی کی اور کہا کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کے خلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا لیکن 7 ماہ گزرنے کے باوجود بھی مقامی حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس گلزار احمد نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا
انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب کے رویے کے خلاف متاثرہ فریقین کی درخواستوں کو شنوائی نہیں ملی، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔
احسن بھون کا کہنا تھا کہ وکلا تنظیموں نے آئین و قانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت سے باقی نمائندوں کی رائے غیر مؤثر کردی گئی۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کے معیار یکساں ہوں گے تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی زیادہ تر تعیناتیاں ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہوئیں، وکلا تنظیموں نے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
احسن بھون نے شکوہ کیا کہ قانون اور آئین کے تحت یکساں احتساب کے بجائے من پسند احتساب کو ترجیح دی گئی۔
مزید پڑھیں: عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس سے متعلق انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک جرأت مند جج نے ایک ادارے کے ذیلی سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے آئین سے روگردانی کی، جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ پر کیچڑ اچھالا گیا۔
انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جھوٹے ریفرنس ختم کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز قرار دیا۔
موجودہ نظام سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے، اٹارنی جنرل
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کے لیے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا، کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پاکر بھاگ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے، چیف جسٹس نے بلدیاتی اختیارات پر آج اہم فیصلہ صادر کیا، موجودہ نظام سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مخالفت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں، ججز کی تعیناتی میں شفافیت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
تاحیات نااہلی کےخلاف درخواست واپس کرکے ہمیں مایوس کیا گیا، وائس چیئرمین پی بی اے
اس موقع پر وائس چیئرمین پاکستان بار ایسوسی ایشن حفیظ الرحمٰن چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے دفاعی زمینوں کے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کا قابل تحسین ازخود نوٹس لیا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عمرعطاء بندیال نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے امید بندھی تھی کہ ججز کا تقرر میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر ہوگا، بدقسمتی سے اکثر ججز صاحبان کی تعیناتی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں کی گئی۔
انہوں نے تاحیات نا اہلی کے خلاف درخواست کی واپسی پر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے انہیں مایوس کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر عام ہے کہ خفیہ ادارے ارباب اختیار کی نجی زندگی کی معلومات یکجا کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں، عدالت عظمیٰ خفیہ اداروں کی بلیک میلنگ پر غیر جانبدارانہ نگرانی کرے۔
نئے چیف جسٹس پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بار مطمئن ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال جیسی شفیق شخصیت کے پاس اعلی ادارے کا اختیار منتقل ہو رہا ہے۔