• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

بہاولنگر: وڈیو وائرل ہونے کے بعد ’سی آئی اے‘ کے 7 اہلکاروں کو سزائیں

شائع January 31, 2022
متاثرہ شہری کی جانب سے واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ  کیے جانے کچھ ہی گھنٹوں کے دوران 60 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
متاثرہ شہری کی جانب سے واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے کچھ ہی گھنٹوں کے دوران 60 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) بہاولنگر نے پولیس اہلکاروں کی مبینہ وڈیو وائرل ہونے کے بعد کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) برانچ کے 6 اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف اور ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کو معطل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مبینہ وڈیو میں اہلکاروں کو نوجوان سے گاڑی کی دستاویزات چیک کرنے کے نام پر پیسے لیتے، نوجوان کو پولیس اسٹیشن اور ایک مقامی سیاست دان کے گھر کے تہہ خانے میں غیر قانونی طور پر قید دیکھا جاسکتا ہے۔

نوجوان شبیر نے ڈان کو بتایا کہ 25 جنوری کو صبح 11 بجے کے قریب وہ کینٹ روڈ کے قریب اپنی کار میں اپنے رشتہ دار کا انتظار کر رہے تھے جب سی آئی اے کے اے ایس آئی اعجاز حسین 8 اہلکاروں کے ہمراہ سول کپڑوں میں وہاں آئے اور دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق آرگنائزڈ کرائم برانچ (او سی بی) سے ہے۔

شبیر نے بتایا کہ شناخت اور کار کی دستاویزات کی جانچ کے بعد انہوں نے مجھے گاڑی سی آئی اے پولیس اسٹیشن لے جانے کو کہا۔

شبیر نے پولیس ہیلپ لائن 1787 پر کال کرکے پولیس کے اعلیٰ حکام کو معاملے سے متعلق آگاہ کیا لیکن اے ایس آئی نے 1787 کے آپریٹر کو یقین دلایا کہ یہ معمول کی چیکنگ کا معاملہ ہے اور انہیں جلد چھوڑ دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سٹیزن پورٹل پر جعلسازی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا حکم

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈی ایس پی نے ان سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد عملے کو انہیں رہا کرنے کا کہا، تاہم انہیں تھانے میں موجود نجی لوگوں کی جانب سے روک لیا گیا اور گاڑی کی مکمل دستاویزات دکھانے کے لیے کہا گیا۔

شبیر نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے واٹس ایپ پر گاڑی کی مکمل دستاویزات موصول کر لیں تو اے ایس آئی نے ان کو دیکھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھ سے باقاعدہ تفتیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ میں نے ایسی جگہ گاڑی کھڑی کی تھی جہاں ایک ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی۔

شبیر کا کہنا تھا کہ تقریباً 2 گھنٹے تک سی آئی اے تھانے میں ڈی ایس پی کی موجودگی میں غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد انہیں زبردستی ایک گاڑی میں ڈال کر ایک سیاست دان کے تہہ خانے منتقل کردیا گیا جہاں اس سیاست دان نے ان سے بدتمیزی کی اور رشوت کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ایک رشتہ دار کی جانب سے سیاست دان کو فون کال کرکے مجھے رہا کرنے کی منت کے بعد سیاست دان نے اس اے ایس آئی کو مجھے چھوڑنے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

ان کا کہنا تھا کہ اے ایس آئی انہیں رہا کرنے پر تو راضی ہوگیا مگر ان کی گاڑی چھوڑنے پر تیار نہیں تھا اور 50 ہزار روپے رشوت کا مطالبہ کیا، جس کے بعد شبیر کو دوبارہ سی آئی اے تھانے منتقل کیا گیا اور پھر آخر کار ڈی ایس پی کی مداخلت پر ان کو رہا کیا گیا۔

نوجوان نے اپنے ساتھ پیش آئے تکلیف دہ واقعے کی وڈیو ہفتے کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی تھی جو کہ وائرل ہوگئی تھی اور کچھ ہی گھنٹوں کے دوران اس کو 60 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا، انہوں نے بتایا کہ وڈیو اپلوڈ کرنے پر انہیں مختلف عناصر کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔

ڈی پی او کے پی آر او شہزاد اشفاق کا کہنا تھا کہ ڈی پی او نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے سی آئی اے کے 6 اہلکاروں کو برطرف کرتے ہوئے لائن حاضر اور اے ایس آئی اعجاز حسین کو معطل کردیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی اسی پی صدر تین دنوں کے اندر واقعے کی تحقیقات کریں گے اور جو بھی واقعے میں ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

اہلکاروں کی برطرفی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سی آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ صرف اے ایس آئی کا تعلق سی آئی اے سے تھا جبکہ وڈیو میں نظر آنے والے دیگر لوگ سی آئی اے کے اہلکار نہیں تھے بلکہ نجی افراد تھے جن کو تھانے سے برطرف کردیا گیا ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اے ایس آئی اور اس کے ساتھ موجود شخص کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور وہ کئی سالوں سے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے محکمہ پولیس میں روابط رکھتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وڈیو میں نظر آنے والے سیاست دان کو فری ہینڈ دیا گیا ہے۔

ڈی ایس پی سی آئی اے ندیم سرور نے معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ ڈی ایس پی صدر مہر ندیم کا کہنا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں اور معاملے کو میرٹ کے مطابق دیکھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024