• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پرویز مشرف اثاثہ جات کیس: نیب چیئرمین کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

شائع January 29, 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ نیب، ریٹائرڈ جنرلز کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ نیب، ریٹائرڈ جنرلز کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) آمر صدر ریٹائر جنرل پرویز مشرف کے اپنے دور اقتدار میں مبینہ کرپشن کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے خلاف توہین عدالت کی سماعت پیر کو کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کورٹ رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 جنوری 2018 کو فیصلہ دیا تھا کہ نیب، کرپشن کے الزامات میں ریٹائرڈ جنرلز کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔

اس فیصلے سے قومی احتساب بیورو کے آرڈیننس (این اے او) 1999 میں موجود تذبذب دور ہوگیا تھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شکایات کے باوجود بھی انسداد کرپشن کا ادارہ ہمیشہ آرمی کے ریٹائرڈ افسران کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی درخواست پر وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم

بینچ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحیم کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کر رہا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے ذرائع آمدن سے زائد اثاثے ظاہر کیے تھے۔

درخواست میں نیب سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

انعام الرحیم، جو ایک وکیل بھی ہیں، کی جانب سے 9 سال قبل دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیب نے ریٹائرڈ جنرل پر لگائے گئے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کی تحقیقات شروع کی تھی، بعد ازاں 2013 میں بیورو نے انعام الرحیم کو آگاہ کیا کہ اختیارات کی کمی کی وجہ سے شکایت پر کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

تاہم فروری 2018 میں جاری کیے گئے تاریخی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ’بیورو کے پاس درخواست گزار کی شکایت پر غور کرنے کا اختیار موجود ہے اور غور و خوض کے بعد اگر یہ رائے سامنے آئے کہ آرڈیننس 1999 کے تحت بادی النظر میں جرم کیا گیا ہے تو یہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیقات کرتے ہوئے ضروری اقدامات اٹھائے۔

درخواست گزار نے دلیل دی کہ جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر مملکت ملک کے دفاع اور شہریوں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے حلف کا غلط استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف نے سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

پرویز مشرف کی کتاب کے صفحہ نمبر 237 پرموجود چیپٹر ’مین ہنٹ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے انعام رحیم نے نشاندہی کی کہ سابق آمر رہنما نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے متعدد افراد کو امریکا کے حوالے کیا اور دولت بنائی۔

درخواست کنندہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ ’پرویز مشرف نے مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں میں کرپشن کو ہوا دی اور انہیں استحقاق کے برخلاف پلاٹ الاٹ کیے گئے‘۔

توہین عدالت کی درخواست میں انعام رحیم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے مبینہ طور پر مختلف کنٹونمنٹ میں موجود لاکھوں ایکڑ پر مبنی قیمتی اراضی ضائع کی اور اس سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے کہا کہ صرف کراچی کنٹونمنٹ میں ہی 2 ہزار 125 ایکڑ زمین ضائع کی گئی جس کی تفصیلات پہلے ہی نیب کو فراہم کی جاچکی ہیں۔

علاوہ ازیں انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کی جانب سے مبینہ قبضے میں لی گئی اراضی کی مالیت اربوں روپے ہے، ریٹائرڈ جنرل کی جانب سے اپنے دور میں یہ جائیدادیں ظاہر کی گئی نہ ہی انکم ٹیکس سمیت دیگر ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز ادا کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

درخواست گزار نے نیب کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ احتساب بیورو 4 ماہ کے دوران تحقیقات مکمل کر سکتا تھا، جس کے بعد نیب کے ریجنل ڈائریکٹر کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ رہ جاتا ہے، لیکن اگلے چار ماہ تک تحقیقاتی کی گئی۔

تاہم، اس دوران کیس اتنا تیار ہوچکا ہوگا کہ اسے احتساب عدالت کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے نیب نے درخواست گزار کو صرف کال اپ نوٹس جاری کیا اس کے علاوہ مزید کوئی کوشش نہیں کی۔

درخواست گزار نے نشاندہی کی کہ اگر چیئرمین نیب کے حالیہ بیانات پر روشنی ڈالی جائے تو نیب عدالتوں نے ایک ہزار 194 ملزمان کو سزائیں سنائی۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص جس نے اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلح افواج کے اعلیٰ اداروں میں بدعنوانی پھیلائی اور سیاسی چالبازی اور انجینئرنگ کی، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال اور نیب قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی اتحاد بنایا اور توڑا وہ تاحال فرار ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024