لکھاری نمرہ احمد ڈراموں میں خواتین پر تشدد کرتے ہیرو دکھانے پر ناراض
زیادہ تر شخصیت سازی اور اخلاقیات پر لکھنے والی ناول نگار اور مصنفہ نمرہ احمد نے پاکستانی ڈراموں میں محبت کے نام پر خواتین پر تشدد، ان کے اغوا کیے جانے اور انہیں مرد ہیروز کی جانب سے ہراساں کرنے کے مناظر دکھانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں معاشرے میں بگاڑ قرار دے دیا۔
نمرہ احمد ’زنجبیل‘ نامی آن لائن بک اسٹور کی مالک بھی ہیں اور انہوں نے ’جنت کے پتے‘ ناول سمیت ’میں انمول’ جیسی شخصیت سازی کو بہتر بنانے والی کتاب بھی لکھی ہے۔
نمرہ احمد نے 27 جنوری کو انسٹاگرام اسٹوری میں پاکستانی ڈراموں میں خواتین پر تشدد اور انہیں ایک جنسی شے کے طور پر دکھائے جانے والے مناظر سے متعلق پوسٹس کیں اور بعض اداکاروں کو بھی ایسے کردار ادا کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا۔
لکھاری کا کہنا تھا کہ تقریبا ہر پاکستانی ڈراما کا مرد ہیرو محبت کے نام پر یا جس سے وہ محبت کرنا چاہتا ہے، اس خاتون پر تشدد کرتا ہے، اسے اغوا کرتا ہے اور اسے ہراساں کرتا ہے اور حیران کن طور پر ایسا کرنے والے مرد کو آخر تک ہیرو کے طور پر ہی دکھایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈراموں میں خواتین پرتشدد، ان کے استحصال اور ہراسانی کو مرد ہیرو کا پاگل پن یا عشق کا نام دے کر ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔
نمرہ احمد نے لکھا کہ ایسے ہی ڈرامے سماج میں حقیقی جرائم کا سبب بنتے ہیں۔
انہوں نے ’دیوانگی اور عشق ہے‘ نامی ڈراموں میں نور مقدم کیس اور ظاہر جعفر کی سفاکانہ کارروائیوں سے بھی جوڑا اور کہا کہ ایک طرف ہم ظاہر جعفر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، دوسری طرف خواتین پر تشدد کرنے والے ڈراموں اور ہیروز کو سراہتے ہیں۔
لکھاری نے اپنی پوسٹس میں ’روپوش‘ نامی ٹیلی فلم کا ذکر بھی کیا اور اس بات پر حیرانگی کا اظہار بھی کیا کہ خواتین کو جذباتی طور پر پھنسانے والے مرد ہیروز، ان پر جسمانی تشدد کرنے والے اور انہیں ہراساں کرنے والے ہیروز کے ڈراموں اور ٹیلی فلموں پر ٹی وی اسکرین پر چلا کر پوری قوم کو ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔
انہوں نے دانش تیمور اور فیروز خان کے نام مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں اداکار خصوصی طور پر ایسے کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، جن میں وہ خواتین پر تشدد اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ خواتین پر تشدد اور ان کے استحصال دکھانے والے ڈراموں کو ہی ریٹنگ سب سے زیادہ آتی ہے۔
نمرہ احمد نے سوال کیا کہ آخر کب تک پاکستانی ڈراموں میں خواتین پر تشدد اور انہیں استحصال کا نشانہ بناتےہوئے دکھایا جائے گا۔
نمرہ احمد کی جانب سے ڈراموں کی کہانیوں اور ان کی منظر کشی پر کی جانے والی تنقید پر لوگوں نے ان کی تعریفیں بھی کیں اور ان کی بات سے اتفاق بھی کیا۔
نمرہ احمد سے قبل بھی متعدد لکھاری اور یہاں تک کہ شوبز کے لوگ بھی پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے خلاف تشدد اور ان کا استحصال دکھانے پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں، تاہم اس کے باوجود ملک میں ایسے ہی ڈرامے تواتر سے بنائے جا رہے ہیں۔