پانی بچانے کے لیے تن تنہا ڈیم تعمیر کرنے والا شخص
کوئٹہ کے پرانے رہائشی دعویٰ کرتے ہیں کہ 2000ء، 2004ء اور 2008ء میں ہونے والی خشک سالی سے قبل یہاں اتنی زیادہ بارشیں اور برف باری ہوتی تھی کہ وہ گرمی کے موسم کو بھول ہی چکے تھے اور ان کے گھروں میں بھی پنکھوں اور ایئر کنڈیشنر کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
ماضی میں بلوچستان کے سب سے زیادہ آبادی والے اس شہر کو کبھی پانی کی کمیابی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا تھا، مگر موجودہ دور میں پانی کی کمبیابی بلوچستان میں بالعموم اور کوئٹہ میں بالخصوص سب سے زیادہ سنجیدہ ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔
ڈان میں 31 مئی 2021ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں زیرِ زمین پانی کی سطح 50 فٹ کی جگہ اب 1200 فٹ ہوگئی ہے۔ بعض اوقات اس گہرائی تک کھدائی کرنے کے بعد بھی پانی حاصل نہیں ہوتا۔
کوئٹہ شہر میں پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ 2019ء میں دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی (واسا) شہر کو روزانہ صرف 34.8 ملین گیلن پانی فراہم کرسکتی ہے جبکہ شہر کی ضرورت 61 ملین گیلن روزانہ کی ہے۔
پرانی پائپ لائنیں شہر کے اکثر مقامات تک پانی پہنچانے کے قابل نہیں ہیں جبکہ صاف پانی میں آلودہ پانی کا ملنا بھی اب عام ہوچکا ہے۔ لوگ پینے کے پانی کے لیے ٹرکوں اور ٹریکٹروں کے ذریعے پانی حاصل کرتے تھے۔ ٹریکٹروں کے ذریعے ملنے والا پانی نسبتاً سستا ہوتا تھا تاہم یہ ٹریکٹر اکثر سڑکوں کو خراب کرنے کا باعث بنتے تھے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے ٹریکٹروں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کردی ہے اور یوں اب کوئٹہ میں پانی (اس کے علاوہ ریت، بجری اور سیمنٹ بھی) اب ٹریکٹروں کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
جولائی 2020ء میں وفاقی حکومت نے پاکستان میں ذراعت کے شعبے کی بہتری کے لیے ٹریکٹروں پر 15 لاکھ روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا تھا۔ یوں کئی کسانوں نے زرعی مقاصد کے لیے ٹریکٹر خریدے اور مزید آمدن کے لیے انہیں شہر میں پانی سپلائی کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے رہے۔
اس مشکل صورتحال میں ایک ایسا شخص سامنے آیا جسے اکثر لوگ خبطی ہی سمجھتے ہیں۔ اگست 2020ء میں 47 سالہ مظہر علی نے اپنے علاقے میں تن تنہا ایک ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کوئٹہ کے مشرقی مضافات میں مری آباد نامی علاقے میں رہتا ہے جہاں آبادی کی اکثریت ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہے۔
مظہر آٹو موبائل کے پرزہ جات کا کام کرتے ہیں۔ وہ اکثر کوہ مہردار پر جاتے اور دیکھتے کہ پانی کی کمی کے باعث وہاں موجود درخت سوکھتے جارہے ہیں اور وہاں پرندے بھی کم ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان پہاڑوں نے کئی برسوں تک بارشیں اور برف باری دیکھی ہے اور اگر یہاں مٹی کے ڈیم بنا دیے جاتے تو یہ کوئٹہ کے لیے پانی کا ایک بڑا ذریعہ ہوسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے منصوبہ بندی، ترقی اور آبپاشی کے محکموں نے کوئی ڈیم یا پانی کا ذخیرہ نہیں بنایا۔ یوں اس پہاڑی علاقے کا درست استعمال نہیں کیا گیا‘۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 20 سال قبل فوج نے اپنی مشقوں کے لیے یہاں ڈیم تعمیر کیا تھا اور اسے پانی سے بھر دیا تھا تاہم ’مشقیں ختم ہونے کے بعد اس ڈیم کی دیکھ بھال کی جاسکتی تھی اور اسے ایک فعال ڈیم کے طور پر برقرار رکھا جاسکتا تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا‘۔
یوں مظہر نے خود ہی کچھ کرنے کی ٹھان لی۔
وہ پتھر اور اوزار لے کر اکیلے ہی پہاڑ پر چڑھتے اور انہیں ڈیم کی جگہ تک پہنچنے کے لیے 2 گھنٹے کا وقت لگتا۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں بڑے پتھروں کو چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتا ہوں اور اس دوران میرے ہاتھ، پیر بھی زخمی ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں ہمیشہ پرندوں کے لیے 20 لیٹر پانی اپنے ساتھ لے کر جاتا‘۔
علی کو مٹی کا یہ بند یا ڈیم بنانے میں تقریباً 2 سال کا عرصے لگا، یہ ڈیم سطح سمندر سے تقریباً 2 ہزار 100 میٹر اونچائی پر واقع ہے۔ اس کی اپنی اونچائی 12 فٹ، لمبائی 40 فٹ اور چوڑائی 24 فٹ ہے۔ یہ مہردار پہاڑوں میں بوکو اور زیارت کوہ کے عقب میں موجود ہے۔ اس ڈیم میں بارش اور برف کے ذریعے 8 لاکھ 60 ہزار لیٹر پانی جمع کیا جاسکتا ہے جس سے اطراف کی آبادیوں کو پانی فراہم کیا جاسکے گا۔ مارچ کے بعد جب برف پگھلنا شروع ہوگی تو اس ڈیم میں پانی جمع ہونا شروع ہوجائے گا اور یہ فعال ہوجائے گا۔
مظہر علی کا کہنا ہے کہ ’میں نے مثال قائم کردی ہے، اب یہ حکومت کا کام ہے کہ اس ڈیم کو واسا کی پائپ لائن سے جوڑے یا پھر اس کے لیے نئی پائپ لائن بچھائے تاکہ اس پانی کو اطراف کی آبادیوں تک پہنچایا جاسکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ واٹر ٹینکروں کے ذریعے اس پانی کو مری آباد میں سپلائی کیا جائے‘۔
تقریباً ایک سال تک مظہر علی نے اکیلے ڈیم پر کام کیا۔ پھر علاقہ مکین ان کے ساتھ شامل ہوگئے، کچھ تجسس کی وجہ سے اور کچھ تکلف میں۔ اب تقریباً 2 سال کے بعد، رضاکاروں کے ساتھ مل کر مظہر علی اس ڈیم کی لمبائی 200 فٹ اور اس کی اونچائی مزید 12 فٹ بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں کوئی انجینیئر نہیں ہوں لیکن وقت اور تجرے نے مجھے پتھروں، سیمنٹ اور ریت کے بارے میں بہت کچھ سکھا دیا ہے‘۔
مری آباد کے رہائشیوں نے اس ڈیم کی حفاطت اور مضبوطی کے مسائل حل کرنے میں مظہر علی کی مدد کی۔ مظہر نے بتایا کہ ’ہم نے سیپیج کے مسئلے پر کام کیا اور دیکھا کہ ڈیم کس طرح پہاڑوں سے آنے والے پانی کے دباؤ کو برداشت کرے گا‘۔
انہوں نے اس ڈیم کو اپنے والد سے منسوب کیا ہے۔ انہوں نے 1990ء میں کوہ مہردار میں ایک ڈیم تعمیر کیا تھا۔ مظہر علی نے ہمیں بتایا کہ ’بدقسمتی سے بارشوں کی وجہ سے وہ ڈیم بہہ گیا، وہ ابھی اپنی تعمیر کے مراحل میں ہی تھا۔ ان دونوں ڈیموں کے درمیان تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اور میں نے کم سے کم خطرے والی جگہ کا انتخاب کیا ہے‘۔
مظہر علی اب پہاڑوں پر ان جڑی بوٹیوں اور شہتوت کے درختوں کے لیے پانی لے جاتے ہیں جو انہوں نے ڈھلوانوں پر خود لگائے ہیں۔ انہوں نے ان پہاڑوں میں چکور اور عقاب دیکھے ہیں اور وہ ان پہاڑوں کو ہنگول نیشنل پارک جیسی پناہ گاہ میں تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے دیگر منصوبوں میں ایک کثیر المقاصد ٹرائی سائیکل بھی شامل ہے۔ یہ ایک تھری اِن ون پورٹ ایبل اور سستی لیتھ مشین ہے جو ملنگ اور ڈریلنگ کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک موٹر بائیک کاپٹر بھی ہے، اور یہ ایک طرح کا دستی طور پر کنٹرول ہونے والا ڈرون بھی ہے جو زرعی زمینوں اور ٹریفک کی نگرانی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مظہر علی نے ہمیں بتایا کہ ’ان منصوبوں کا مقصد مری آباد میں غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے میں مدد کرنا ہے‘۔ وہ اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری ٹینڈرز کے لیے بولی لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کے لیے مری آباد سے ہی افرادی قوت حاصل کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان علاقوں میں لوگ ٹارگٹ کلنگ (ہزارہ برادری کی) سے بچنے کے لیے زیادہ تر گھروں میں ہی رہتے ہیں اور اکثر ان کے پاس کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پانی بچانا ہماری ذمہ داری ہے لیکن اپنے طور پر ڈیم تعمیر کرکے میں حکام کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ پانی کا مسئلہ فوری ردِعمل اور منصوبہ بندی کا متقاضی ہے‘۔
مظہر علی صرف ریت اور پتھر سے کام کرنے کا ہی ہنر نہیں جانتے بلکہ خطاطی کا فن بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے خطاطی کی بنیادی تربیت مشہور خطاط خورشید عالم اور گوہر قلم سے حاصل کی ہوئی ہے۔ مظہر علی جب اپنے دیگر منصوبوں سے فارغ ہوتے ہیں تو کچھ وقت خطاطی کو بھی دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس فنکار کے پاس خوبصورت لفظوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
یہ مضمون 16 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں