• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اپوزیشن سینیٹرز نے نادرا میں تعینات ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام دوبارہ طلب کرلیے

شائع January 18, 2022
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے اپوزیشن کو تنبیہ کی کہ نفرت کی بنیاد پر سیاست نہ کریں— فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے اپوزیشن کو تنبیہ کی کہ نفرت کی بنیاد پر سیاست نہ کریں— فائل فوٹو: اے ایف پی

سینیٹ میں ریٹائرڈ افسران کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اعلیٰ عہدوں پر تقرری پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی اور اپوزیشن کے سینیٹرز نے وفاقی وزیر علی محمد خان سے اداروں میں تقرریوں کی تفصیلات ایک بار پھر طلب کر لیں۔

سینیٹ اجلاس میں یہ معاملہ اس سے قبل 29 دسمبر کو اس وقت زیر بحث آیا تھا جب جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے شکایت کی تھی کہ ان کا سوال تھا کہ مسلح افواج کے کتنے ریٹائرڈ ملازمین کو نادرا میں دوبارہ بھرتی کیا گیا ہے، جبکہ انہیں نادرا ملازمین کی تعداد سے آگاہ کیا گیا جو 13 ہزار 997 ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سوال اس لیے کیا تھا کہ پاکستان شماریات بیورو کے مطابق بیروزگاری کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ دوسری طرف مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو اچھی مراعات کے ساتھ بھرتی کیا جارہا ہے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 'اس سوال کا جواب غالباً شیخ رشید احمد کو دینا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی حکومت کے خلاف نعرے بازی

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب روایت پڑ گئی ہے کہ وزرا ایوان میں اپنے سوالات کے جواب نہیں دینے آتے، یہ سینیٹ کے وقار کا سوال ہے، ایک یا دو وفاقی وزرا کے علاوہ باقی وزرا سوالات کے جواب دینے نہیں آتے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزرا کو ہدایت دی کہ وہ خود ایوان میں پیش ہوں، خود آکر ایوان میں سوالات کے جواب دیا کریں، ایوان بھی نئے نئے چہرے دیکھے گا جو دکھتے ہی نہیں۔

مشتاق احمد کے سوال پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پچھلے اجلاس میں دیا گیا جواب دہراتے ہوئے تجویز دی کہ فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی سے متعلق نیا سوال پیش کیا جائے۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے سینیٹر نے اصرار کیا کہ انہوں نے ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کے حوالے سے سوال کیا تھا، لیکن انہیں صرف نمائندگان کے حوالے سے جواب موصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ آپ یہ بات مان کیوں نہیں لیتے کہ مسلح افواج کے درجنوں افسران کا تقرر کیا گیا، آپ ایوان میں ان کا نام نہیں لینا چاہتے؟

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس: اپوزیشن کا آئی ایم ایف سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہ کرنے پر شدید احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے مسلح افواج سے اتنے لوگ نادرا میں بھرتی کیے ہیں کہ پورا نادرا ان کے قبضے میں ہے اور ایوان کو جواب کیوں نہیں دیا جارہا۔

مشتاق احمد کی بات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہر چیز ریکارڈ پر موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جواب دیں گے، مسلح افواج ملک کی اتنی خدمت کر رہی ہیں، کیا آپ سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں؟ نہیں تو ان سے اتنی نفرت کیوں ہے؟

اپوزیشن کی جانب سے رضا ربانی نے علی محمد خان سے سوال کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مختلف اداروں کے اہم عہدوں پر مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین تعینات ہیں؟ اے این ایف، اسپارکو، ایرا اور پی آئی اے کے سربراہ کا تعلق مسلح افواج سے نہیں؟

انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم، نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل، اقتصادی ایڈوائزری کمیٹی اور چیئرمین واپڈا کا تعلق مسلح افواج سے نہیں؟

رضا ربانی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر کا تعلق مسلح افواج سے ہے، این ڈی ایم اے کے سربراہ کا تعلق بھی مسلح افواج سے ہے۔

مزید پڑھیں: نادرا میں مسلح افواج کے کتنے ریٹائرڈ افسران بھرتی کیے گئے؟ اپوزیشن نے تفصیلات مانگ لی

پیپلز پارٹی کے رہنما نے واضح کیا کہ ہم ہرگز مسلح افواج کے خلاف نہیں ہیں، ہم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہم ملٹرائزیشن آف سول انسٹی ٹیوشن کے خلاف ہیں۔

علی محمد خان نے رضا ربانی کی بات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ سوال کر رہے ہیں جن کی پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، ایوان کو فوجی اور سول توازن نہ سکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کو چھوڑیں لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں وزارت داخلہ مسلح افواج کے نصیر الدین بابر چلا رہے تھے۔

دریں اثنا قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص جواب ملنے کے باوجود معاملے کو مختلف سمتوں میں لے جایا جارہا ہے۔

اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم آپ کی وفاداری کو جانتے ہیں، کبھی آپ کی نفرت کا موسم ہوتا ہے اور کبھی آپ کی محبت کا موسم ہوتا ہے، شاید آج کل آپ کے درمیان کوئی الجھن ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024