خیبرپختونخوا: ورکرز ویلفیئر بورڈ کی تقرریوں میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں
تحقیقاتی کمیٹی نے خیبر پختونخوا ورکر ویلفیئر بورڈ (ڈبلیو ڈبلیو بی) کے تحت مختلف دفاتر اور اداروں میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ایک ہزار 650 ملازمین کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کنٹریکٹ پر بھرتی کیے جانے والے ملازمین کے حوالے سے تحقیقات کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا، ملازمین کو ڈبلیو ڈبلیو بی کے تحت فوک گرامر اسکول اور ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے 2 ہزار 910 ملازمین کی بھرتیوں کے مرحلے کی جانچ پڑتال کی اور ایک ہزار 650 ملازمین کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کے شواہد موصول ہوئے، جبکہ ایک ہزار 259 ملازمین کی بھرتیاں مکمل قواعد کے تحت کی گئیں۔
غیر قانونی طور پر بھرتی کیے جانے والوں میں اساتذہ، ٹریڈ انسٹرکٹر، لیبارٹری اسسٹنٹس، لیبارٹری اٹینڈنٹس، کمپیوٹر انسٹرکٹر، اسٹور کیپر، سینیٹری ورکرز کمپیوٹر لیبارٹری اٹینڈینٹ، نائب قاصد، اور کیئر ٹیکرز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ خیبر پختونخوا ورکرز ویلفیئر بورڈ میں بدعنوانی اور جانبداری پر برہم
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ہزار 135 ملازمین کی بغیر اشتہار جبکہ دیگر 22 شعبوں میں بھرتی کے لیے اشتہاروں کی تصدیق کی ضرورت ہے۔
اسی طرح 169 مختلف اضلاع میں بھرتی کے لیے مقرر کردہ طریقے کار کی مذمت کی گئی جس میں امیدوار کا تعلق اشتہار میں دیے گئے اضلاع کے بجائے دیگر اضلاع سے ہے۔
علاوہ ازیں، تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ 179 افراد کو مختلف عہدوں پر بغیر کسی تحریری ٹیسٹ کے بھرتی کیا گیا ہے، 49 افراد کو مقرر کردہ مدت ختم ہونے کے بعد بھرتی کیا گیا، جبکہ 5 افراد کو غیر متعلقہ طور پر بھرتی کیا گیا۔
علاوہ ازیں، 33 افراد کا تقرر اشتہار میں درج عہدے کے خلاف کیا گیا جبکہ 13 بھرتیوں کے بنیادی پے اسکیل میں بھی کمی کی گئی۔
مزید برآں، دو افراد جو اسامیوں کا اشتہار شائع ہونے سے قبل ہی بھرتی کرلیا گیا تھا جبکہ دیگر 7 کو بغیر ٹیسٹ اور انٹرویو کے بھرتی کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کانٹریکٹ ملازمین کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا جواب مسترد
علاوہ ازیں، ڈگری اور تعلیم متعلقہ عہدوں کے مطابق نہ ہونے کے باوجود بھی دیگر 7 افراد کو ملازمت دی گئی جبہ 11 ملازمین کے پاس متعلقہ عہدے پر تجربے کا دعویٰ کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ متعدد ملازمین کو بغیر کسی اشتہار کے تقرر کیا گیا، اس طرح کے دیگر کیسز میں اشتہار غیر معروف اخبار یا ایسے اخبار میں شائع کیا گیا جس کی ترسیل نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اخبار میں اشتہار دینے کا مقصد اسامیوں کے حوالے سے کم سے کم افراد کو آگاہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ کیسز میں کمیٹی کو معلوم ہوا ہے کہ جعلی اشتہار کی اشاعت کروائی گئی جس میں اشتہار میں مخصوص پے اسکیل درج کیا گیا جبکہ نچلے پے اسکیل کے عہدوں پر بھرتیاں کی گئیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ بہت کیسز میں بغیر کسی منظم مرحلے کے ریلیکسیشن کی مدت میں اضافہ کیا گیا، تاہم کیسز میں امیدوار کے اہل ہونے کے درکار طریقہ کار کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کو کانٹریکٹ ملازمین کا کیس سننے سے روک دیا
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ انہیں متعدد ملازمین کی بھرتیوں کے لیے کیے گیے اسکرین اور تحریری ٹیسٹ کا ریکارڈ بھی موصول نہیں ہوا۔
تاہم کمیٹی کا کہنا ہے کہ امیدواروں کو انٹرویو میں نمبرز دیے گئے ہیں، علاوہ ازیں کچھ افراد جو باقاعدہ تقرر کا حکم نامہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں صوبے میں ڈبلیو ڈبلیو بی کے تحت کی گئی تقریباً تمام تر بھرتیوں میں غیرقانونی طریقہ کار اور بے ضابطگیوں کے سنجیدہ شواہد ملے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ غیر قانونی تقرر کے لیے اسکول قائم کیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی کو معلوم ہوا کہ اسکول ایسی جگہ پر قائم کیے گئے تھے جہاں انہیں ضرورت نہیں تھی اور یہاں بغیر کسی طریقہ کار کے غیر ضروری عملہ تقرر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی نے خود ورکرز ویلفیئر فنڈ، ای او بی آئی کو وفاق کے ماتحت کیا، زلفی بخاری
معاملے پر تبصرے کے لیے جب ڈبلیو ڈبلیو بی کے سینئر عہدیدار سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے ابھی تک بے ضابطگیوں سے متعلق اپنی رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہوگی صوبائی حکومت اسے عدالت عظمیٰ میں پیش کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ' مجھے تحقیقاتی رپورٹ کے مواد کے حوالے سے علم نہیں ہے، لہذا میں اس حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں'۔
تبصرے (1) بند ہیں