پاکستان میں مہنگا دودھ سستا کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ ہے کراچی کے نواحی علاقے میں واقع اکرم* کا ڈیری فارم جہاں نیلی راوی بھینس کو آج ہی لایا گیا ہے۔ ساہیوال سے کراچی تک کے 24 گھنٹے سے زائد کے سفر نے ان بھینسوں کو تھکا دیا ہے۔ ان میں نیلی پری کہلانے والی بھینس سب سے زیادہ خوبصورت اور صحت مند دکھائی دے رہی ہے مگر سفر کی تھکان نے اس کو بھی بے حال کیا ہوا ہے۔
نیلی پری یہ نہیں جانتی کہ اس اردو کے سفر کے اختتام پر اس کے لیے انگریزی کا سفر شروع ہونے والا ہے۔ نیلی پری نے کراچی پہنچ کر ایک صحت مند کٹے کو جنم دیا اور ساتھ ہی دودھ کی پیداوار کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ نیلی پری کو باڑے میں ایک جگہ سنگل سے باندھ دیا گیا ہے اور اب اپنی باقی ماندہ زندگی کے 270 دن وہ اسی سنگل سے بندھے ہوئے گزار دے گی۔ یہ بھینس اب روزانہ دودھ دے کر کراچی کی مِلک سپلائی چین کا حصہ بن جائے گی۔ کراچی میں چونکہ پراپرٹی بہت مہنگی ہے اس لیے باڑے کے مالک جانور کو کھلی جگہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
نیلی پری کو جس جگہ باندھا گیا ہے وہاں پر صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔ اس کے گوبر کو ٹھکانے لگانے کا محض اتنا بندوبست ہے کہ دن میں ایک مرتبہ اسے باڑے کے سامنے جمع کردیا جاتا ہے جہاں مکھیاں مچھر اور مختلف کیڑے مکوڑے اس گوبر پر پلتے ہیں اور وہاں سے اڑ کر اس نیلی پری پر آن بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ بندھے رہنے اور تعفن زدہ ماحول نے نیلی پری کو بہت پریشان کیا ہوا ہے۔ گرمیوں میں ان جانوروں کو کسی قسم کی راحت پہنچانے کا انتظام نہیں کیا جاتا جبکہ بارشوں میں صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ گندگی، تعفن اور حشرات کی وجہ سے جانور تناؤ کا شکار رہتا ہے۔
گائیں اور بھینس کو پانی بھی ان کی مرضی کے مطابق فراہم نہیں کیا جاتا۔ جانور کو صبح اور شام کے اوقات میں پانی دیا جاتا ہے جبکہ اس کے سامنے ڈالے جانے والے چارے کی بھی جانچ نہیں کی جاتی ہے کہ وہ کتنا چارہ کھا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جس جانور کو 16 سے 18 لیٹر دودھ دینا تھا، وہ 10 لیٹر سے بھی کم دودھ دینے لگتا ہے۔ بعدازاں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی اس کی دودھ دینے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔
کراچی میں مجموعی طور پر روزانہ 45 لاکھ لیٹر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شہرِ قائد میں کھلے دودھ کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ کراچی میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن دودھ کی فی لیٹر قیمت 155 روپے سے زیادہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق دودھ کی قیمت کے 3 اہم جزو ہیں:
پہلا: جانور کی خریداری پر آنے والی لاگت، جانور کی قیمت میں یومیہ کمی اور اموات، ٹیکس ملا کر فی جانور کا یومیہ خرچہ 522 روپے بنتا ہے۔
دوسرا: فارم کی منیجمنٹ پر آنے والی لاگت، یوٹیلیٹی بلز، ویکسینیشن اور پانی کی یومیہ لاگت 139.55 روپے بنتی ہے جبکہ دودھ دینے والے جانور پر خوراک کا یومیہ خرچہ 549 روپے بتایا جاتا ہے۔
اس طرح ایک دودھ دینے والے جانور پر یومیہ 1241 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک دودھ دینے والے جانور پر ہونے والے اخراجات کے عوض اس سے اوسطاً 8 لیٹر دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو دودھ کی مقدار سے تقیسم کیا جائے تو دودھ کی قیمت 155 روپے بنتی ہے۔ تاہم سندھ لائیو اسٹاک نے کراچی شہر کے لیے دودھ کی فی لیٹر قیمت کا تخمینہ 133روپے لگایا ہے۔
تیسرا: ایک اور معاملہ جو دودھ کی قیمت میں اضافے کا سبب ہے، وہ نہ صرف دودھ کی جانوروں کی سپلائی چین کو بُری طرح متاثر کررہا ہے بلکہ گوشت کی سپلائی چین پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ بھینس کالونی کراچی میں ایک دودھ دینے والے جانور سے 270 دن تک دودھ لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اسے ذبح ہونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ نیلی پری کی طرح بھینس کالونی میں جانوروں کو لانے کے بعد ایک ہی سنگل سے 270 روز تک باندھ کر دودھ حاصل کرنے کے بعد قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے سربراہ شاکر عمر گجر کے مطابق کراچی میں سالانہ 14 لاکھ جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے جن میں بڑی تعداد دودھ دینے والی گائیں، بھینسوں اور نومولود کٹوں کی ہوتی ہے۔ ملک بھر میں بھینس اور گائیں کے بچوں کی شرح اموات 30 فیصد ہے جبکہ کراچی میں 80 فیصد بچے پیدائش کے بعد مرجاتے ہیں۔
نوجوان بھینس کو اکثر و بیشتر کم عمری میں ہی قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر بھینس گائیں کو قبل از وقت ذبح نہ کیا جائے تو وہ 7 سے 8 برس تک دودھ دے سکتی ہیں۔ تاہم اس کو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں ذبح کردیا جاتا ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1975ء میں بننے والے بائی لاز میں کارآمد جانوروں کو ذبح کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت کراچی کی کیٹل مارکیٹ میں 7 سے 8 لاکھ دودھ دینے والے جانور موجود ہیں۔ جن میں سے 4 لاکھ صرف بھینس کالونی میں ہیں۔ شہر میں دودھ دینے والے جانور ایک پورا سال بھی باڑے میں نہیں گزار پاتے ہیں۔ تقریباً 272 دنوں بعد جب بھینس یا گائے کا لیکٹیشن دورانیہ ختم ہوتا ہے تو کسان اس جانور کو قصاب کے حوالے کرکے ان کی جگہ نیا جانور باندھ دیتا ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ دودھ فروش کیٹل فارمرز کٹوں کو پالنے کے بجائے انہیں قصاب کے حوالے کردیتے ہیں؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک لیٹر دودھ ایک وقت میں کٹا یا بچہ پی جائے گا تو انہیں 155 روپے کا خسارہ ہوگا۔ اگر ہر فارمر 3 سے 4 بچھڑوں کو پالے تو اس کو یومیہ 3 سے 4 لیٹر دودھ کی ضرورت ہوگی۔ اکثر فارمر اس کام میں اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے۔ فارمرز صرف اور صرف دودھ کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی ہدایات پر لائیو اسٹاک ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ نے ان بچھڑوں کی حفاظت کے لیے سیو دی کاف کے نام سے پروگرام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ ڈاکٹر محسن کنانی کہتے ہیں کہ ’ملک بھر میں 30 فیصد اور کراچی میں 80 فیصد بچھڑے ذبح کردیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام 2023ء تک جاری رہے گا جس کے تحت مجموعی طور پر 4 لاکھ بچھڑوں کو بچانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فی جانور 6500 روپے کی سبسڈی کے علاوہ دیگر مراعات بھی دی جارہی ہیں‘۔
مگر سندھ اور بلوچستان میں اس طرح کے اقدامات نظر نہیں آرہے۔
پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں سے بہت زیادہ ہے اور دودھ بھی مہنگا بکتا ہے۔ فارمرز اپنا منافع بڑھانے کے لیے قیمت میں اضافہ کرتے ہیں مگر انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر جانوروں کی پیداوار بڑھائی جائے تو اس طرح انہیں زیادہ فائدہ ہوگا اور دودھ کی لاگت بھی کم ہوگی۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیری کے کاروبار سے وابستہ فریزلینڈ کمپنیاں اینگرو پاکستان کے ڈاکٹر ناصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں قیمتوں کو بڑھا کر کاروبار کو منافع بخش بنانے کا رجحان پایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں جدید اصولوں کی بنیاد پر کاروباری لاگت کم کرکے اور جانوروں کی پیداواری صلاحیت بڑھا کر منافع بڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک جانور سے یومیہ جتنا دودھ حاصل ہوتا ہے وہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے‘۔
ان کے مطابق ’چارے کی سال بھر مناسب قیمت پر عدم دستیابی دودھ کی پیداوار اور لاگت سے جڑا ایک اہم مسئلہ ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں خاص طور پر مقامی نسلوں کو جنیاتی طور پر بہتر بنانا ایک ضروری عمل ہے جو پاکستان میں تقریباً ناپید ہے۔ اگر ہم طویل عرصے کی درست منصوبہ بندی کریں تو جینیاتی طور پر دودھ دینے کے لیے تیار کیے گئے جانوروں کا استعمال ہی دودھ کی پیداوار میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے دو طرفہ حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی جس میں ایک طرف روایتی کسانوں کے لیے بنیادی آگاہی، خدمت اور آسان قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور دوسری طرف سرمایہ کاروں کو کمرشل یا کارپوریٹ فارمنگ کی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں‘۔
فارمنگ کے لیے سازگار تجارتی اور کاروباری ماحول فراہم کرنے میں حکومت کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے تاکہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔
اب ہم چلتے ہیں پنجاب کے شہر ساہیوال جہاں راؤ محمد عثمان نے ایک جدید کیٹل فارم بنایا ہوا ہے۔ عثمان پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں۔ وہ نہ صرف دودھ دینے والے جانوروں کو عالمی معیار کے مطابق پال رہے ہیں بلکہ اپنی تعلیم کو بھی اس پیشے میں استعمال کررہے ہیں۔ وہ فارم سے متعلق ہر چیز کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے فارم کو بہتر انداز سے چلانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔
راؤ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ’وہ معیاری اصولوں کے مطابق اپنے تمام جانوروں کو پال رہے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کو صاف ماحول، اندھیرے یا تنگ کمروں میں بند کرنے کے بجائے کھلے ہوادار اور صاف ستھری جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ انہیں سنگل سے باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔ جانور کے سامنے 24 گھنٹے چارہ (خوراک) اور پانی ڈالا جاتا ہے۔ دن میں 3 سے 4 مرتبہ پیدا ہونے والے گوبر کی ٹریکٹر سے صفائی کی جاتی ہے۔ شیڈ میں جراثیم اور حشرات کش ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے‘۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جانوروں کو موسم کی مناسبت سے غذا دی جاتی ہے۔ سردیوں میں مولیسس کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ جانوروں نے یومیہ بنیادوں پر کتنا چارہ کھایا ہے؟ اور اگر کھرلی میں باقی بچے ہوئے چارے کی مقدار بڑھنے لگے تو اس شیڈ میں موجود جانوروں کی جانچ کی جاتی ہے‘۔
عثمان کا کہنا ہے کہ ’دودھ دینے والے جانور کو اچھی خوراک اور آرام دہ ماحول دینا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر جانور کو اچھا ماحول نہیں ملا اور اس کو کیڑے مکوڑے اور دیگر چیزوں سے بے آرامی رہی تو اس کی دودھ کی پیداوار کم ہوجائے گی‘۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دودھ کتنے روپے لیٹر پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب عثمان نے یوں دیا کہ ’انہیں تمام تر یومیہ اخراجات نکال کر فارم پر فی لیٹر دودھ 65 روپے میں پڑتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ فارم پر موجود جانور کو اچھا ماحول اور خوراک دی جاتی ہے۔ سب سے کم ایلڈ (کم پیداوار) والے جانور یومیہ 26 سے 28 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں جبکہ بعض جانور یومیہ 45 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں‘۔
عثمان اپنے فارم پر دودھ کی یومیہ بنیادوں پر جانچ کرتے ہیں اور ہر جانور کے دودھ کی جانچ کرکے ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ اگر دودھ میں کسی قسم کی بیماری کے اثرات کا پتا چلے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار جانوروں کے خون کے نمونے بھی لیے جاتے ہیں۔
بے چاری نیلی پری کے مالک نے اس کو 270 دن کے لیکٹیشن کے بعد فروخت کردینا ہے مگر عثمان کے فارم پر معاملہ الگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے جانور سے سالانہ 305 دن یعنی بھینس کالونی کی بھینس کے مقابلے میں 35 اضافی دن دودھ لیتے ہیں اور جس گائیں کو بچے کی پیدائش کے لیے تیار کرنا ہو اس کی خوراک میں کمی کی جاتی ہے۔ پھر اس کو قدرتی نظام گزارا جاتا ہے اور کم از کم 5 مرتبہ اس عمل کو دہرایا جاتا ہے اور 7 سال بعد بھلے ہی جانور دودھ دینے کے قابل ہو لیکن اس کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایک جانور 7 سال میں دودھ دینے کے علاوہ 5 سے 7 بچھڑے بھی دے جاتا ہے۔
دوسری جانب نومولود بچھڑیوں کو فارم پر پالا جاتا ہے اور یہ جانور ریٹائر ہونے والے جانوروں کی جگہ لیتے رہتے ہیں اور اس طرح ایک سائیکل چلتا رہتا ہے۔ یوں فارم کے لیے نئے جانور خریدنے نہیں پڑتے ہیں۔
عثمان کے مطابق ’گائیں کے بچھڑوں کو پالنا ایک مشکل کام ہے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر دودھ فراہم کرنا پڑتا ہے اور پیدائش کے 90 دن تک ان پر ڈیڑھ لاکھ روپے خرچہ ہوتا ہے جبکہ ان جانوروں کو دودھ دینے کے قابل بنانے تک خرچہ ڈھائی لاکھ روپے تک آجاتا ہے‘۔
کراچی کی بھینس کالونی اور ساہیوال کے عثمان کے پاس دودھ کی پیداوار کے حوالے سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جس طرح دودھ دینے والے جانوروں کو بھینس کالونی میں رکھا جارہا ہے اور کسی طور بھی جدید طریقہ کار کو نہیں اپنایا جارہا ہے اس سے ہر چند ماہ بعد یا تو شہر میں دودھ کی قیمت کو بڑھانا پڑے گا یا پھر حکومت کو اس عمل میں مداخلت کرتے ہوئے کسانوں کو دودھ کی پیداوار کے نظام کو اپ گریڈ اور جدید بنانے کے حوالے سے معاونت کرنی ہوگی تاکہ دودھ کی قیمت کو کم کیا جاسکے۔
پاکستان میں فوڈ سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کسانوں، حکومت، مِلک پراسیسرز کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا تاکہ جانوروں کی ایلڈ کو بڑھایا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے قلیل و طویل مدتی پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی۔ اس پالیسی کو تیار کرنے میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ یہ وقت دودھ کے معیار جانچنے، دودھ کی ہینڈلنگ اور کولڈ چین کے قیام کے حوالے سے اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں