حکومت کو 2022 کی پہلی ششماہی میں اقتصادی نمو 5 فیصد رہنے کی توقع
وزارت خزانہ نے نئے سال کے آغاز میں تخمینہ لگایا ہے کہ 2022 کی پہلی ششماہی میں معیشت کی شرح نمو 5 فیصد رہے گی جبکہ بیرونی جانب سے کافی بہتری آئے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ سال 2021 کے اختتام پر تقریباً تمام بڑے معاشی اشاریوں کے لیے مضبوط تخمینوں کے ساتھ سامنے آئی ہے، مالی سال 22 کی پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد رہی، ٹیکس وصولی اہداف سے زیادہ ہوئی، ذخائر میں بہتری آئی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2011 کے بعد سب سے کم رہا۔
مالی سال 22 کی دوسری ششماہی کے لیے متوقع آؤٹ لک کے مطابق وزارت خزانہ نے اقتصادی نمو 5 فیصد، سالانہ برآمدات 31 ارب ڈالر اور ترسیلات زر 32 ارب رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔
وزارت نے پیش گوئی کی ہے کہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی وصولیاں 60 کھرب روپے تک پہنچ جائیں گی جبکہ مالی سال 22 کی دوسری ششماہی میں تجارتی خسارہ کم ہو جائے گا۔
وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر حالیہ دباؤ اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے، تاہم بروقت پالیسی اقدامات کی وجہ سے خطرات کم ہو رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے سرکاری اعلان میں کہا گیا کہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ ترقی اس وقت حاصل ہوئی جب باقی دنیا کو بڑے پیمانے پر پیداوار میں کمی کا سامنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے اومیکرون کے پیشِ نظر معاشی بحران کا خدشہ ظاہر کردیا
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 2021 میں ریکارڈ بمپر فصلیں دیکھنے میں آئیں اور یہ رجحان اگلے سال بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق چاول کی پیداوار گزشتہ سال 74 لاکھ ٹن کے مقابلے 84 لاکھ ٹن، مکئی کی پیداوار گزشتہ سال 79 لاکھ ٹن کے مقابلے میں 85 لاکھ ٹن اور گندم کی پیداوار 2 کروڑ 52 لاکھ ٹن کے مقابلے میں 2 کروڑ 75 لاکھ ٹن رہی۔
اسی طرح کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی 91 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں 71 لاکھ گانٹھوں تک پہنچ گئی۔
سال 2022 میں گنے کی پیداوار8 کروڑ 77 لاکھ ٹن، گندم 2 کروڑ 89 لاکھ ٹن اور چاول 88 لاکھ ٹن تک پہنچنے کی امید ہے۔
مالیاتی سائیڈ پر ایف بی آر کی آمدنی 47 کھرب 64 کروڑ روپے تک پہنچ گئی جبکہ غیر ٹیکس محصولات میں سال 2021 میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا اور یہ 16 کھرب 30 ارب روپے رہی۔
مجموعی خسارے کی صورت حال میں بہتری آئی اور یہ مالی سال 2020 میں جی ڈی پی کے8.1 فیصد کے مقابلے میں مالی سال 2021 میں 7.1 فیصد رہا۔
رواں سال ٹیکس کی صورتحال گزشتہ سال سے بھی بہتر ہے اور پاکستان کو ایک سال میں 60 کھرب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا ہونے کا امکان ہے ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 12 کھرب روپے زیادہ ہے۔
اب تک بہترین ٹیکس وصولی کی وجہ سے بنیادی بیلنس نے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 206 ارب روپے کا سرپلس رپورٹ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: سالنامہ: عوام کے لیے معاشی لحاظ سے ایک اور مشکل سال
رواں مالی سال کے بجٹ کے بعد عالمی اجناس کی قیمتیں غیر معمولی سطح پر پہنچ گئیں جس سے کرنسیوں پر دباؤ بڑھ گیا اور پوری دنیا میں افراط زر میں اضافہ ہوا۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق عالمی سطح پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں 27 فیصد بڑھ کر 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں جو 2021 میں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور چین سمیت ترقی یافتہ ممالک میں ریکارڈ مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
بیرونی سطح پر درآمدی نمو کی رفتار کم ہونے کی توقع ہے، اس کے علاوہ توقع سے زیادہ بہتر زرعی فصل کے آؤٹ لک کو دیکھتے ہوئے خوراک کی درآمد کو کم کیا جائے گا۔
وزارت خزانہ کے تجزیے کے مطابق درآمدات میں 80 سے 85 فیصد اضافہ قیمتوں کے اثر کی وجہ سے ہوا جبکہ 15 سے 20 فیصد مقداری ہے۔