• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نادرا میں مسلح افواج کے کتنے ریٹائرڈ افسران بھرتی کیے گئے؟ اپوزیشن نے تفصیلات مانگ لی

شائع December 29, 2021
وزیر مملکت علی محمد خان (دائیں)، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ (وسط) اور سینیٹر مشتاق احمد (بائیں)— تصیور: ڈان نیوز
وزیر مملکت علی محمد خان (دائیں)، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ (وسط) اور سینیٹر مشتاق احمد (بائیں)— تصیور: ڈان نیوز

سینیٹ کے اجلاس کے دوران نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی بھرتی کے معاملے پر بحث دیکھنے میں آئی اور حزب اختلاف نے اس ضمن میں تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’میں نے سوال کیا تھا کہ مسلح افواج کے کتنے ریٹارڈ افسران کو نادرا میں تعینات کیا گیا ہے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں نادرا میں مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران کو بھرتی کرنے سے متعلق نامکمل جواب دیا گیا ہے جبکہ ان کا سوال ان افسران کی تعداد سے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’میری معلومات کے مطابق مسلح افواج کے بہت سے ریٹائرڈ افسران کو نادرا میں دوبارہ بھرتی کیا گیا ہے، حالانکہ بڑی تعداد میں نوجوان نوکریوں کے لیے پھر رہے ہیں‘ ۔

سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ’ریٹائرڈ اہلکاروں کو مراعات کے ساتھ دوبارہ نوکریوں پر رکھنا نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی ہے‘۔

انہوں نے اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا کہ انہیں بتایا جائے کہ نادرا میں کتنے ریٹائرڈ فوجی افسران بھرتی کیے گئے ہیں اور وہ کن عہدوں پر ہیں۔

مزید پڑھیے: نادرا نے بائیو میٹرک تصدیق کے لیے ایپ کا اجرا کردیا

جماعت اسلامی کے سینیٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ڈیپوٹیشن پر 6 فوجی افسران کو نادرا میں بھرتی کیا گیا ہے اور وہ ریٹائرڈ فوجی افسران نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹر مشتاق ایک نیا سوال جمع کروا دیں کیونکہ موجودہ سوال ڈیپوٹیشن پر آئے افراد کے حوالے سے تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سوال کو مزید بہتر بناتے ہوئے بھرتی کیے گئے ریٹائرڈ افسران کی تفصیلات، ان کی بھرتی کی تاریخ، ان کی ذمہ داریاں اور یہ کہ آیا ان کے پاس نوکری کے حوالے سے کوئی اضافی قابلیت ہے کے بارے میں دریافت کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’تقریباً 2 ماہ قبل میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایک دن میں 2 درجن کے قریب ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر بھرتی کیے گئے جو کہ سب ریٹائرڈ فوجی افسران تھے‘۔

وزیر مملکت علی محمد خان نے اسے ’بہت اچھا سوال‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا تفصیل سے جواب دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’کسی کو خصوصی مراعات نہیں دی جارہیں، ان افراد کو نوکری کے معیار کے مطابق بھرتی کیا گیا ہے‘۔

قومی سلامتی پالیسی پر بحث

سینیٹ کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے پر سخت احتجاج اور نعرے بازی ہوئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ قومی سلامتی سے جڑے معاملات ’زندگی اور موت‘ کا مسئلہ ہیں۔

انہوں نے اس پالیسی میں معیشت کو مرکزی حیثیت دینے پر تعریف کرتے ہوئے اسے پیش کرنے کے طریقے پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ امید کی جارہی تھی کہ اس پالیسی کو سینیٹ کے سامنے لایا جائے گا جو کہ قانون سازی اور پالیسی سازی کا اعلیٰ ترین فورم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 6 دسمبر کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں حزب اختلاف نے شرکت نہیں کی۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تاہم وزیر اعظم خود اس میں شریک نہیں ہوئے، جب تک وزیر اعظم خود اس حوالے سے تجاویز اور تنقید نہ سنتے یہ اجلاس بے کار ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کونسی قومی سلامتی پالیسی ہے جس میں پارلیمان کا کوئی کردار نہیں ہے‘۔

شیری رحمٰن کی تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز ان کی تقریر میں رکاوٹ ڈالتے رہے۔

مزید پڑھیے: پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس شروع، اپوزیشن کی عدم شرکت

شیری رحمٰن نے کہا کہ ‘کیا آپ ان گروہوں کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا؟ کیا آپ انہیں مرکزی دھارے میں لانا اور انہیں قبول کرنا چاہتے ہیں؟‘

انہوں نے کہا کہ یہ کونسی قومی سلامتی ہے جو اُس معیشت پر مرکوز ہے جسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چلائے گا۔

اس دوران شیری رحمٰن اور محسن عزیز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور شیری رحمٰن نے چیئرمین سینیٹ سے ہاؤس کو کنٹرول کرنے کو کہا۔

شیری رحمٰن نے واک آؤٹ کا اعلان کرنے سے قبل کہا کہ ’اِن کے دور میں قومی سلامتی پالیسی کی آڑ میں کالے قوانین لائے جارہے ہیں، یہ پاکستان اور پارلیمان کے ساتھ مذاق ہے‘۔

سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی نے حکومت اور اپوزیشن اراکین سے بار بار اپنی نشستوں پر واپس جانے کا مطالبہ کیا اور بالآخر کچھ دیر بعد وہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024