اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس، شرکت کیلئے وفود کی آمد کل سےشروع ہوگی، وزیرخارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے وفود کی آمد کل (جمعے) سے شروع ہوگی۔
سرکاری خبرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وزیرخارجہ نے کہا کہ 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے تین سیشن ہوں گے، سیکرٹری جنرل او آئی سمیت مہمان وفود کل سے پاکستان آنا شروع ہوں گے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے رابطہ ختم کرنا دنیا کیلئے ‘خطرناک’ ہوگا، وزیراعظم عمران خان
اجلاس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابتدائی اور اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا اور اجلاس میں افغان وفد کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں روس اور امریکا نے بھی اپنے نمائندے بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہا کہ پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہونے جا رہا ہے، 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلی آئی اور اس کے بعد اس تبدیلی کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آئے۔ وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پڑوسی ملک نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ‘سینکشن پاکستان’ کی میڈیا مہم چلائی لیکن ان کا جھوٹ بے نقاب ہوا اور ہمارے میڈیا نے اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے، 15 اگست کے بعد ہم نے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کے لیےافغانستان کے قریبی 6 ہمسایہ ممالک کا فورم تشکیل دیا گیا اور اس کا پہلا ورچوئل اجلاس پاکستان، دوسرا تہران اور تیسرا اجلاس بیجنگ میں متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کو ہر ممکن انسانی امداد فراہم کریں گے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کے اداروں، پی 5 اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایک طبقے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ لاکھوں افغان شہریوں کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2022 کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محض 5 فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بینکنگ سسٹم کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان سے باہر مقیم لوگ چاہتے ہوئے بھی افغان شہریوں کے لیے کوئی معاشی مدد بھیجنے سے قاصر ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ نکات پر تشویش ہے، جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلا جیسے نکات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں غذائی قلت: فنڈ قائم کردیا، عوام عطیات جمع کراسکتے ہیں، فواد چوہدری
ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی باور کروایا کہ وہ 90 کی دہائی کی غلطی نہ دہرائے، اگر افغانستان میں صورت حال قابو میں نہ آ ئی تو یہ سب کے لیے خطرے کا مؤجب ہو گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج افغان عبوری حکومت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے وسائل نہیں، اس اجلاس میں ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا مؤقف خود پیش کر سکیں اور وہ صورت حال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے۔