’آزاد عدلیہ اور پارلیمنٹ کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے‘
لاہور: پاکستان اور بھارت کے صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے دونوں ممالک میں میڈیا میں سنسر شپ اور اظہار رائے کی آزادی کے فقدان کا اظہار کیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے دن ایک سیشن میں بھارتی اور پاکستانی شرکا سمیت دیگر نے شرکت کی۔
مزیدپڑھیں: بھارتی میڈیا کو پاکستان میں ’خانہ جنگی‘ کے جھوٹے دعوؤں پر منہ کی کھانا پڑگئی
صحافی ضرار کھوڑو نے 'سینسرشپ کو قانونی حیثیت دے کر اظہار رائے کی آزادی کو کم کرنا' سے متعلق سیشن میں موڈریٹر کا کردار ادا کیا اور کہا کہ سنسر شپ اب مختلف شکلیں اختیار کرچکی ہیں۔
اس حوالے سے صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے سٹیون بٹلر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی، بغاوت، قومی سلامتی، سائبر کرائم قوانین جیسے قانون سازی کے ذریعے پورے ایشیا میں کئی طریقوں سے سنسرشپ نافذ کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سنسرشپ کی حتمی شکل قتل ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے تعلق رکھنے والی کرسٹین چنگ نے کہا کہ کووڈ 19 کی وبا نے خطے میں رجحانات کو بڑھا دیا ہے اور یہ کہ آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزیاں صحافیوں سے بڑھ کر انسانی حقوق کے محافظوں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے عام لوگوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ریاستیں آزادی اظہار کے حق کے تحفظ، احترام اور اسے پورا کرنے کے اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہی ہیں۔
مزیدپڑھیں: بھارت آزادی رائے کو روکنے والے 'ڈیجیٹل شکاریوں' کی فہرست میں شامل
صحافی حامد میر نے بھارتی پینلسٹس اور مسٹر سٹیون بٹلر کو ویزا دینے سے انکار کی مذمت کی۔
ان کاکہنا تھا کہ اگر وہ لوگ جنہوں نے ویزا جاری کرنے سے انکار کیا تھا اور کچھ کہنے والوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو یہ ان کی کمزوری کی علامت ہے۔
حامد میر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی پریس کی آزادی میں حائل رکاوٹ سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم بھی شامل تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے اس دعوے کا ذکر کرتے ہوئے کہ ملک میں عدلیہ آزاد ہے، حامد میر نے سوال کیا کہ اگر ایسا تھا تو صحافیوں مطیع اللہ جان، اسد طور، ابصار عالم کے کیسز میں انصاف کیوں نہیں ہوا۔
انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان مقدمات پر ازخود نوٹس لیں اور پریس کی آزادی کے بارے میں 40 سال پہلے حبیب جالب کا حوالہ بھی دیا۔
حامد میر نے کہا کہ ’عدلیہ آزاد نہیں ہے اگر میڈیا آزاد نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں جمہوریت نہیں ہے، پاکستان میں ہائبرڈ جمہوریت ہے جو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘۔
صحافی ضرار کھوڑو نے اس بات کا ذکر کیا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں سنسر کرنا کس طرح ممکن ہے، جتنا زیادہ وہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، پانی اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بدترین پریس سینسرشپ والے 10 ممالک
ورچوئل لنک کے ذریعے سیشن میں شریک ہونے والی بھارتی صحافی جیوتی ملہوترا نے بے تحاشا سنسر شپ، اختلاف رائے اور آزادی اظہار پر پابندی، مزاحیہ اداکاروں اور صحافیوں کو محض رپورٹنگ کرنے پر مقدمات کا تذکرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے لوگوں کی بات سننی ہو گی۔
بھارتی کارکن اور وکیل وریندا گروور نے اس بارے میں بات کی کہ لوگ اب اپنے الفاظ کو احتیاط سے چننے میں کس طرح محتاط ہیں تاکہ کسی کو موقع نہ ملا جائے، ’اس کے باوجود ہمیں اپنے ذہنوں کی بات کرتے رہنا چاہیے اور اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کو سنسر کرنے کے لیے قانون بنایا گیا ہے، جو ’قانونی طور پر سب سے زیادہ جابرانہ اقدامات‘ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نفرت انگیز تقریر کے لیے آزادانہ اظہار رائے عام ہے۔
لندن سے سیشن کا حصہ بننے والی بھارتی صحافی برکھا دت نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح انہیں قوم پرست کہا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ باہم بات چیت پر یقین رکھتی ہیں چاہے وہ خود کسی کے خیالات سے کتنا ہی غیرمتفق ہوں۔
برکھا دت نے کہا کہ جب ہم اختلافات سے گھبراتے ہیں اور اپنی رائے کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہمیں کسی بھی وجہ سے مخالف فریق کی عکس بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔