پاکستان ورلڈکپ تو ہار گیا لیکن بہت کچھ جیت گیا
ورلڈکپ میں انڈیا سے ہارنے کا سلسلہ تو قومی ٹیم نے روک دیا مگر ورلڈکپ کے ناک آؤٹ میچوں میں آسٹریلیا سے ہارنے کا سلسلہ نہ روکا جاسکا۔
گزشتہ روز کھیلا جانے والا دوسرا سیمی فائنل 2010ء کے ٹی20 ورلڈکپ سیمی فائنل کی طرح کافی حد تک پاکستان کے حق میں ہوگیا تھا، اتنے میں کمنٹیٹرز کو مائیکل ہسی اور سعید اجمل کی یاد آگئی۔
شین واٹسن کے خیال میں مارکس اسٹوئنس ہسی جیسی ہٹنگ کرسکتے تھے لیکن یہ کام حیران کن طور پر میتھیو ویڈ نے انجام دیا۔ میتھیو ویڈ نے بھی مائیک ہسی کی طرح پاکستان کے سب سے بہترین باؤلر پر حملہ کیا اور 3 مسلسل چھکوں نے پاکستان کو فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا۔
مگر میچ میں حسن علی نے میتھیو ویڈ کا جو کیچ چھوڑا وہ بھی بہت اہم ثابت ہوا۔ حسن علی پچھلے سال فٹنس حاصل کرنے کے بعد سے بہترین فارم میں تھے لیکن ٹی20 ورلڈکپ کی ابتدا سے ہی ایسا لگا جیسے فارم ان سے روٹھ گئی۔ اس پورے ورلڈ کپ میں حسن علی صرف 5 وکٹیں حاصل کرسکے اور ایونٹ میں ان کا اکانومی ریٹ 9 سے بھی اوپر رہا۔ اگر سیمی فائنل کا تذکرہ کریں تو یہاں بھی حسن نے اپنے 4 اوورز میں 44 رنز دیے اور کوئی بھی وکٹ حاصل نہیں کرسکے۔
ان کی اس فارم کو دیکھتے ہوئے بار بار تجویز دی جاتی رہی کہ حسن علی کی جگہ محمد وسیم کو کسی بھی میچ میں آزمایا ضرور جائے لیکن ٹیم انتظامیہ نے حسن پر اعتماد برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ اسی ٹیم انتظامیہ نے فخر زمان پر بھی اعتماد برقرار رکھا تھا جنہوں نے اسی میچ میں ایک نہایت اہم اننگ کھیل کر پاکستان کو ایک اچھے اسکور تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں پاکستانی شائقین محمد حفیظ کو باہر بٹھانے کا مطالبہ بھی کرتے نظر آئے تھے جبکہ ٹورنامنٹ سے قبل کبھی حارث رؤف اور کبھی شاداب خان کی ٹیم میں شمولیت پر بھی سوال اٹھائے جاتے رہے تاہم دونوں نے مختلف مواقع پر اپنی کارکردگی سے نقادوں کو خاموش کروا دیا۔
دبئی کے میدان میں ٹاس کی اہمیت باقی دونوں میدانوں سے کہیں زیادہ رہی۔ یہاں اس ورلڈ کپ میں 11 میچ کھیلے گئے تھے اور 10 مرتبہ ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیمیں میچ جیتی تھیں، اور آسٹریلیا کی خوش قسمتی کہ ٹاس کا سکہ ان کے حق میں گرا۔
اس میگا ایونٹ سے قبل بیشتر پاکستانی اس ٹیم کو کسی قابل نہیں سمجھ رہے تھے۔ اکثر شائقین کے خیال میں پاکستان کو انڈیا اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بڑی شکستوں کا خطرہ تھا جبکہ افغانستان سے میچ کو بھی مشکل قرار دیا گیا۔ مگر یہ ٹیم اپنے تمام گروپ میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی ٹاس ہارنے کے باوجود اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔
ورلڈکپ ٹورنامٹ میں قومی ٹیم کا مجموعی تجربہ
پاکستانی ٹیم نے اس عالمی کپ میں تمام میچوں میں ایک خاص حکمتِ عملی سے بلے بازی کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ پاکستانی اوپنرز پاور پلے اوورز میں وکٹیں بچانے پر فوکس کرتے رہے اور آخر میں تیز کھیل کر ہر میچ میں ایک بڑا اسکور حاصل کرلیا جاتا۔
یہاں بھی شائقین کا خیال تھا کہ کسی بڑی ٹیم کے خلاف یہ حکمتِ عملی ناکام ہوسکتی ہے لیکن پیٹ کمنز کے 19ویں اوور کے علاوہ پاکستان نے بہت عمدہ بلے بازی کی اور ایک اچھا اسکور آسٹریلیا کے سامنے رکھا۔ تاہم وہ جو کہتے ہیں کہ 'کیچ میچ جتواتے ہیں' درست ہی کہتے ہیں۔
جب 10 گیندوں پر آسٹریلیا کو 20 رنز درکار تھے تب حسن علی نے میتھیو ویڈ کا کیچ چھوڑ دیا۔ نہ صرف وہاں 2 رنز بن گئے بلکہ اگلی 3 گیندوں پر ویڈ نے بال کو باؤنڈری کے باہر پہنچا کر مائیک ہسی کی یاد تازہ کردی۔
ورلڈکپ میں قومی ٹیم کا مجموعی تجربہ
پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل تک تو نہ پہنچ سکی لیکن اپنی کارکردگی اور رویے سے بے شمار لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔ ٹی20 ورلڈکپ میں پاکستان کی جانب سے پہلے ہی اوور میں شاہین آفریدی کا روہت شرما کو ایل بی ڈبلیو کرنا ہی پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کو یقینی بنا گیا تھا۔
شاہین آفریدی کا وہ اسپیل اس قدر متاثر کن تھا کہ اس کی یاد آنے والے کئی سالوں تک آتی رہے گی۔ پھر اسی میچ میں پاکستانی اوپنرز کی شاندار کارکردگی بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ بھارتی باؤلنگ لائن کے سامنے ایک مناسب ہدف کا تعاقب بابر اور رضوان نے جس آسانی سے کیا، اس کی توقع شاید کسی کو بھی نہیں تھی۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اگر شعیب ملک اور آصف علی کی کارکردگی شاندار رہی تو افغانستان کے خلاف آصف علی صرف ایک ہی اوور کھیل کر مین آف دی میچ کا ایوارڈ لے اُڑے۔
قومی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں 6 میں سے 5 میچ جیتے اور ہر فتح کا کردار الگ تھا۔ اگر قسمت سیمی فائنل میں پاکستان کا ساتھ دیتی تو چھٹے میچ میں مین آف دی میچ شاداب خان یا فخر زمان بن جاتے۔ دوسری طرف بابر کی کپتانی کو پاکستانی بیٹنگ کنسلٹنٹ میتھیو ہیڈن کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا بھی سراہتا رہا۔
اس ورلڈکپ میں ہم نے بہت کچھ جیتا ہے
پاکستانی ٹیم نے کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس ٹورنامنٹ میں بہترین رویہ بھی پیش کیا۔ پہلے ہی میچ میں فتح کے بعد بابر اور رضوان کی کوہلی سے گفتگو اور پاکستانی کھلاڑیوں کی دھونی سے لیے جانے والے مشوروں سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ اگلے میچوں میں بھی چلتا رہا۔
پاکستانی کھلاڑی راشد خان کو تسلی دیتے بھی نظر آئے اور فتح کے بعد نمیبیا کی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں بھی پہنچ گئے۔ اسکاٹ لینڈ کے کھلاڑیوں کو حارث رؤف کی سالگرہ کے جشن میں شامل کرنا بھی میڈیا پر چھایا رہا۔
یہ پاکستانی ٹیم اگرچہ ٹی20 ورلڈ کپ تو نہ جیت پائی لیکن پاکستان اور بالخصوص پاکستانی کرکٹ کا بہترین امیج دنیا کے سامنے ضرور رکھ چکی ہے۔ اسی ٹورنامنٹ کے دوران آسٹریلیا نے دورہ پاکستان کا اعلان کیا جس میں اب 2 کے بجائے 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جائے گی اور پھر انگلینڈ نے بھی اگلے سال 2 اضافی ٹی20 میچوں کے ساتھ پاکستان کے دورے کا یقین دلایا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان فیصلوں میں کسی حد تک اس ٹیم کی کارکردگی کا کردار بھی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں