بھارت: کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے
سال 2021ء میں کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ اب اپنے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور ناک آؤٹ مرحلے تک رسائی پانے کے لیے زبردست کھینچا تانی جاری ہے۔
گروپ 1 سے انگلینڈ اور گروپ 2 سے پاکستان اپنے ابتدائی چاروں مقابلے جیت کر سیمی فائنل میں جگہ پکّی کرچکے ہیں اور وہاں ان کا سامنا کرنے کے لیے باقی 10 ٹیموں میں سے صرف 2 کا انتخاب باقی ہے۔ چند ملکوں کے امکانات تو تقریباً صفر ہیں، کچھ کے لیے راستہ مکمل طور پر صاف اور واضح ہے اور کوئی ایسا ہے جو 'کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے' کی کیفیت سے دوچار ہے اور بھارت کا تعلق اسی تیسرے گروہ سے ہے۔
ویسے حیرت کی بات لگتی ہے، ایک ایسی ٹیم جو ٹورنامنٹ سے پہلے 'ہاٹ فیورٹ' تھی، کئی ماہرین کے خیال میں اگر نتائج توقعات کے مطابق آئے تو فائنل میں بھارت اور انگلینڈ ہی آمنے سامنے ہوں گے، لیکن روایتی حریف پاکستان اور پھر نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بدترین شکست نے بھارت کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ اسے نہ صرف اپنے باقی ماندہ تمام میچ جیتنے ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلوں سے بھی امیدیں لگانی ہیں کہ وہاں سے بھی اس کے من پسند نتائج سامنے آئیں اور یوں گرتے پڑتے سہی لیکن وہ سیمی فائنل تک پہنچ جائے۔
کم از کم بھارت نے اس سمت میں پہلا قدم تو بڑھا ہی لیا ہے، افغانستان کے خلاف ایک شاندار اور ناقابلِ یقین کامیابی کے ذریعے۔
بجھا بجھا افغانستان
اب تک پورے ورلڈ کپ میں نہ افغانستان اتنا بُرا کھیلا تھا اور نہ بھارت اتنا اچھا کھیلا تھا جتنا بدھ کی شام ابوظہبی میں کھیلا۔ ایک اہم ترین مقابلے کے لیے افغانستان نے اپنی بدترین کارکردگی 'سنبھال' کر رکھی تھی۔
ٹاس جیتا اور توقعات کے مطابق پہلے باؤلنگ ہی کی لیکن میدان میں جو اس کی حالت نظر آئی، وہ ویسی تھی جو عموماً عالمی ٹورنامنٹس میں بھارت کے خلاف پاکستان کی نظر آتی تھی۔ تھکی ہوئی 'باڈی لینگویج'، غیر معیاری باؤلنگ اور ناقص ترین فیلڈنگ، کیچ چھوڑے گئے، مس فیلڈنگ سے حریف کو رنز دیے گئے، قیادت میں دم خم نظر نہیں آیا، ریویوز ضائع کیے گئے، یہاں تک کہ سپر اسٹار راشد خان تک بجھے بجھے نظر آئے۔
ان تمام عوامل کا نتیجہ بھارت کی دھواں دار بلے بازی کی صورت میں نکلا، وہ بھی ایسی کہ ابھی تک اس ورلڈ کپ میں کوئی ٹیم نہیں دکھا پائی۔
بلّا چارج
پہلے اوور میں بھارتی بلے بازوں نے افغان باؤلنگ کے خلاف جو 'بلّا چارج' شروع کیا، وہ آخر تک رُکتا ہوا نظر نہیں آیا۔ گیند باز مکمل طور پر بھارتی بلے بازوں کے رحم و کرم پر نظر آئے۔ کے ایل راہول اور روہت شرما کی جوڑی نے پہلے 4 اوورز میں ہی 52 رنز بنالیے اور پاور پلے کے بعد بھی افغان کھلاڑیوں کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔
بھارت کے ان دونوں اوپننگ بلے بازوں نے پہلی وکٹ پر 140 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ گو کہ یہ اس ورلڈ کپ میں کسی بھی وکٹ کی سب سے بڑی پارٹنرشپ نہیں تھی اور یہ کارنامہ محمد رضوان اور بابر اعظم نے بھارت کے خلاف اہم مقابلے میں 152 رنز کی ناقابلِ شکست ساجھے داری سے انجام دیا تھا، لیکن یہ ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ میں کسی بھی وکٹ کے لیے بھارت کی سب سے بڑی پارٹنر شپ ضرور تھی۔
روہت کی 3 چھکوں اور 8 چوکوں سے مزین اننگ پہلے اختتام کو پہنچی جس میں انہوں نے 47 گیندوں پر 74 رنز بنائے اور جیت کی بنیاد رکھی۔ ان کی اننگ کی خاص جھلک راشد خان کو لگائے گئے مسلسل 2 چھکے تھے، جنہوں نے واقعی شائقین کے دل موہ لیے ہوں گے۔ راہول نے 48 گیندوں پر 69 رنز بنائے۔
یہ دونوں بلے باز پویلین لوٹے تو 17واں اوور جاری تھا اور اسکور بورڈ پر 147 رنز موجود تھے۔ اننگ کے خاتمے میں صرف 21 گیندیں باقی تھیں اور اندازہ لگائیے کہ ان پر کتنے رنز بنے ہوں گے؟ پورے 63!
ریشابھ پنت 13 گیندوں پر 27 اور مستقل تنقید کی زد پر موجود ہاردِک پانڈیا نے اتنی ہی گیندوں پر 35 رنز مارے اور اپنا تمام تر غصہ افغان باؤلرز پر نکال دیا۔ بھارت کی اننگ کے 20 اوورز مکمل ہوئے تو اسکور بورڈ پر 210 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔
اتنی مار کٹائی کے بعد افغانستان کے ہاتھ پیر تو پھولنے ہی تھے۔ صرف 69 رنز پر آدھی ٹیم آؤٹ ہوچکی تھی۔ کپتان محمد نبی اور کریم جنت نے کچھ مزاحمت کی اور انہی کی وجہ سے بھارت کو 66 رنز کی کامیابی ملی، ورنہ ایک مرحلے پر 100 سے زیادہ رنز کی فتح حاصل کرتا نظر آ رہا تھا۔
پوائنٹس ٹیبل پر صورتحال
اس مقابلے سے پہلے افغانستان کا رن ریٹ مثالی تھا، 3.097 جو اس نے اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کے خلاف اپنی شاندار فتوحات کی بدولت حاصل کیا تھا جبکہ بھارت کا رن ریٹ منفی 1.609 تھا۔ لیکن اس کامیابی کی بدولت اب بھارت کا نیٹ رن ریٹ 0.073 ہوچکا ہے جبکہ افغانستان کا گرتے ہوئے 1.481 رہ گیا ہے۔
لیکن افغانستان اب بھی اس لحاظ سے نیوزی لینڈ سے آگے ہے اور یہی وجہ ہے کہ برابر پوائنٹس ہونے کے باوجود پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر براجمان ہے۔
اب کیا ہوگا؟
گروپ 2 میں پاکستان بدستور پہلے نمبر پر ہے اور ممکنہ طور پر ٹاپ پوزیشن اسی کو ملے گی یعنی وہ سیمی فائنل میں انگلینڈ کا سامنا کرنے سے بچ جائے گا۔ اس گروپ سے سیمی فائنل تک رسائی پانے کے لیے 3 ٹیمیں اب بھی میدان میں ہیں: نیوزی لینڈ، افغانستان اور بھارت۔ جی ہاں! افغانستان اور بھارت اب بھی سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہیں، لیکن پہنچیں گے تب جب نتائج ان کی مرضی کے آئیں گے۔
پہلے منظرنامے میں بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کے خلاف میچ میں خود تو بڑی کامیابیاں حاصل کرے لیکن افغانستان اور نمیبیا سے یہ توقع رکھے کہ وہ نیوزی لینڈ کو ہرائیں گے۔ اس میں بھی افغانستان نیوزی لینڈ کو اس طرح شکست دے کہ اس کا نیٹ رن ریٹ بھارت سے آگے نہ بڑھ جائے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ 'تے فیر میں ناں ای سمجھاں؟‘
دوسرے منظرنامے میں باقی ماندہ دونوں میچوں میں بھارت کی بڑی کامیابیوں کے ساتھ اگر نیوزی لینڈ نمیبیا سے جیت جائے لیکن افغانستان سے ہار جائے تو تینوں ٹیمیں 6، 6 پوائنٹس پر آجائیں گی اور یہاں نیٹ رن ریٹ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا جس میں بھارت فی الحال نیوزی لینڈ اور افغانستان دونوں سے پیچھے ہے۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کی قسمت خود اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے، افغانستان کے لیے آخری مقابلہ تقریباً کوارٹر فائنل بن چکا ہے جبکہ بھارت کا سیمی فائنل میں پہنچنا مکمل طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔